مولانا الطاف حسین سے ایک گفتگو

تفسیر

محفلین
.

ِمولانا الطاف حسین حالی سے ایک گفتگو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


( اتوار کی صبح ہے۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہے اور میں گھر کے آفس میں مراقبہ کررہا ہوں ۔ میرا ذہن میں مکمل خاموش ہے۔اچانک میں دیکھتا ہوں کہ میں ایک کرسی پرمولانا الطاف حسین حالی صاحب کے سامنے بیٹھا ہوں۔ )

تفسیر : یہ ریڈیو کائنات ہے۔ ہم حالی صاحب سے آج گفتگو کریں گے۔ مولانا الطاف حسین حالی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ میرا پہلا سوال یہ ہے کہ آپ کا قیام آج کل کہاں ہے؟
حالی۔ مجھے یہ بتا نے کی اجازت نہیں ہے۔
تفسیر۔ جہاں آپ ہیں وہاں حوریں اور غِلماں ہیں۔
حالی۔ تفیسر، مجھے یہ بتا نے کی اجازت نہیں ہے۔
تفسیر۔ چلئے یہ بتائے آپ کہاں پیدا ہوئے؟
حالی۔ میں ہندوستان کے ایک شہر پانی پت میں پیدا ہوا۔
تفسیر۔ نہ صرف آپ ادیب ، شاعر ی بلکہ معاشری مصلح بھی تھے۔
حالی۔ ١٨٥٧ کا سال تاریح ہندوستاں کے مسلمانوں کے لئے ایک اندھیرا وقت تھا آۤذای کی جنگ ہار نے کے بعد انگریزوں نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
تفسیر۔ لیکن آپ نے اپنے قلم سے مسلمانوں کی سماجی اور تعلیمی تربیت کو فروغ دیا۔
حالی۔ ہاں میں نے ١٨٧٩ میں مسدسِ حالی لکھی۔ اس میں، میں نے مالداروں کی خود غرضی، اُ مرا کی پست ہمتی ، مزہبی رہنماؤں کی ہٹ درہمی اور اندھا پن، اور شاعروں کہ گپ شپ کی مذمت اور ملامت کی۔
تفسیر۔ آپ نے شاعری میں نظم پر زیادہ توجہ دی۔
حالی۔ غزل کا استعمال حسن پرستی ، دماغی خوش آئندگی اور درباری آو بھگت تھا۔ نظم دوسرے طرف مقصد، خوشی کویکجا کرتی ہے اور معاشرے کی خدمت کرتی ہے۔نظم میں ایک کوئی بھی مکمل پیغام دیا جاتا ہے غزل کی طرح بکھرے خیالات نہیں۔
تفسیر۔ کیا یہی وجہ تھی کہ آپ نے " مقدمہِ شعر و شاعری " لکھی۔
حالی۔ میرے وقت تک شاعر اور شاعری کی تنقید پر بہت کی کم معلومات موجود تھیں۔اردو کا شاعرمعاشرے کی صحت کا بھی ذمدا رہے۔
تفسیر۔ آپ نے سرسید کے تحریک علی گڑھ میں بھی حصہ لیا۔
حالی۔ سید صاحب مسلمانوں کی رہ نمائی کی اورمسلمانوں کو ان کو پھر سے علم سے روشناس کیا۔
تفسیر۔ میں نے سننا ہے کہ آپ ادیب بھی تھے۔
حالی۔ ہاں میں نے ایک ناول مجلس النسا لکھا تھا۔ میرے زمانے میں عورتوں کی پڑھائی صرف قرآن، عر بی، فا رسی اور اردو تک محدود تھی۔ لیکن مشرقی علوم ان کی حدود سے باہر تھے۔ اس ناول میں زبیدہ خاتون کے اباجان اسکو حساب، جغرافیہ اور تاریخ بھی پڑھاتے ہیں۔
حالی صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ ریڈیو کائنات سے تفسیر سب کو شب خیر کہتا ہے۔​

Hali.gif



کسی نے یہ بقراط سے جاکے پوچھا
مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا " دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں

سبب یا علامت گر ان کو سجھائیں
تو تشخیص میں سو نکا لیں خطائیں
دوا اور پر ہیز سے جی چرائیں
یو نہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس وہں وہ
یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ

یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آکے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفان بپا ہے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی

گھٹا سر پہ ادبار کی چھار رہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس وپیش منڈلارہی ہے
چپ و راست سے یہ صدا آرہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم

پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے
تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں رعونت وہی ہے
ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ

بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں
کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں
نہ ذلت سے نفرت نہ عزت کا ارماں
نہ دوزخ سے ترساں نہ جنت کے خواں
لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انھوں نے
کیا دینِ برحق کو بدنام انھوں نے

وہ دیں جس نے اعدا کو اخواں بنایا
وحوش اور بہائم کو انساں بنایا
درندوں کو غمخوارِ دوراں بنایا
گڈریوں کو عالم کا سلطان بنایا
وہ خط جو تھا ایک ڈھوروں کا گلہ
گراں کردیا اس کا عالم سے پلہ

عرب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا
زمانہ سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشورستاں تھا، نہ کشور کشا تھا
تمدن کا اس پر پڑا تھا نہ سایا
ترقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا

نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میسر
کنول جس سے کھل جائی دل کے سراسر
نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی

زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں
لوؤں کی لپٹ بادِ صرصر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغلیاں
نہ کھیتوں میں غلہ نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی

نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی
نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبع بشر تھی
خدا کی زمیں بن جتی سر بسر تھی
پہاڑ اور صحرا میں ڈیرا تھا سب کا
تلے آسماں کے بسیرا تھا سب کا

کہیں آگ پجتی تھی واں بے محابا
کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا
بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا
بتوں کا عمل سو بسو جا بچا تھا
کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی
طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی

وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
ازل میں مشیت نے تھا جس کو تا کا
کہ اس گھر سے ابلے گا چشمہ بدی کا
وہ تیرتھ تھا اک بت پرستوں کا گویہ
جہاں نامِ حق کا نہ تھا کوئی جویا

قبیلے قبیلے کا بت اک جدا تھا
کسی کا ببل تھا کسی کا صفا تھا
یہ عزا پہ وہ نائلہ پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اک خدا تھا
نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِ انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانوان کا تازیانہ

وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
نہ ٹلتے تھے ہر گز جواڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو وہ شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صدہا قبیلے بگ بیٹھتے تھے

 

نبیل

تکنیکی معاون
تفسیر، بہت اچھی اور معلوماتی تحریر پوسٹ کی ہے آپ نے۔ آپ کی واپسی کی مجھے بہت خوشی ہے۔
 
Top