قبلہ /محترمہ مناسب خیال کیجے تو متن شامل کردیا کیجے ۔ ربط تو یوں بھی آپ ایک مراسلے میں ارسال کرچکی / کرچکے ہیں ۔
میں نے تو یہ ربط ’’سانحہ چلاس کا آنکھوں دیکھا حال‘‘ والی پوسٹ میں لگایا تھا، یہاں کیسے پہنچ گیا میری سمجھ سے باہر ہے۔قبلہ /محترمہ مناسب خیال کیجے تو متن شامل کردیا کیجے ۔ ربط تو یوں بھی آپ ایک مراسلے میں ارسال کرچکی / کرچکے ہیں ۔
میرے خیال سے رویوں کی تبدیلی کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ گزشتہ زمانے کے ہر دو مسالک کے اکابر میں وسعت قلبی اور مروت رعایت کا وافر حصہ موجود تھا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں محفل میں ان اکابر کی ایسی تحریریں جن سے یہ مسالک ایک دوسرے کو قریب آئیں پیش کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ایسی تحریریں یا خبریں کہ جو صرف غصہ، جھنجھلاہٹ، انتقام و دیگر سفلی جذبات بھڑکانے کا ذریعہ بنیں۔ ظلم تو بہرحال ظلم ہے لیکن اس کے بلاوجہ چرچے کرنے اور ان پر تبصروں کی صورت میں اپنی بھڑاس نکالنے سے کئی محفلین(شرکاءومہمان) ایسے لوگوں بھی خلاف ہو جاتے ہیں جن کا اس سارے فساد سے بالکل کوئی تعلق نہیں ہوتا۔دراصل بات یہ ہے کہ علماے اہل دیوبند کے کسی اکابر نے شیعہ مسلک کی تکفیر نہیں کی، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے لیکر مولانا رشید احمد گنگوہی تک، اور مولانا قاسم نانتوی سے لیکر مولانا اشرف علی تھانوی تک۔ پہلی دفعہ اس حوالے سے مولانا عبد الشکور لکھنوی نے قلم اٹھایا۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اس رویہ تکفیری کے حوالے سے اپنے خیالات بصورت خط مولانا اشرف علی تھانوی کو بھیجے، جنہوں نے اس کے جوابات دیے۔ باوجود یہ کہ مولانا اشرف علی تھانوی اس رویہ کی وجوہات کو واضح کرتے نظر آتے ہیں جس کی بنا پر عبد الشکور لکھنوی نے تکفیر کی، پھر بھی خود فتویٰ تکفیر سے گریزاں رہے اور مولانا عبد الماجد نے تو خیر واضح اختلاف کیا۔
پیارے صاحب یہی تو مجھے ’’ یاحیرت‘‘ کہنے پر مجبور کرگیا تھا۔ بہر کیف اب تو لڑی چل نکلی ہے ۔۔۔میں نے تو یہ ربط ’’سانحہ چلاس کا آنکھوں دیکھا حال‘‘ والی پوسٹ میں لگایا تھا، یہاں کیسے پہنچ گیا میری سمجھ سے باہر ہے۔
مجھے تو یہ ساجد بھائی کے کام لگتے ہیں۔پیارے صاحب یہی تو مجھے ’’ یاحیرت‘‘ کہنے پر مجبور کرگیا تھا۔ بہر کیف اب تو لڑی چل نکلی ہے ۔۔۔
جی ، اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر میں نے اسے ذیلی مراسلے سے نکال کر الگ اور مناسب دھاگے میں منتقل کیا تھا۔مجھے تو یہ ساجد بھائی کے کام لگتے ہیں۔
دیوبندی اور بریلوی مکتبہ فکر کو ایک دوسرے کے قریب صرف اس صورت میں لایا جاسکتا ہے کہ فریقین کے نزدیک جو غیر متنازعہ اکابر ہیں اور جن کے علم و فضل اور بزرگی پر دونوں متفق ہیں انکی تعلیمات کو عام کیا جائے۔۔۔اس سلسلے میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی، شاہ عبدالعزیز دہلوی، حضرت ثنائ اللہ پانی پتی مظہری، شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی سوچ کو عام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ہر دو فریق یکساں طور پر عزت کرتے ہیں۔۔۔میرے خیال سے رویوں کی تبدیلی کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ گزشتہ زمانے کے ہر دو مسالک کے اکابر میں وسعت قلبی اور مروت رعایت کا وافر حصہ موجود تھا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں محفل میں ان اکابر کی ایسی تحریریں جن سے یہ مسالک ایک دوسرے کو قریب آئیں پیش کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ایسی تحریریں یا خبریں کہ جو صرف غصہ، جھنجھلاہٹ، انتقام و دیگر سفلی جذبات بھڑکانے کا ذریعہ بنیں۔ ظلم تو بہرحال ظلم ہے لیکن اس کے بلاوجہ چرچے کرنے اور ان پر تبصروں کی صورت میں اپنی بھڑاس نکالنے سے کئی محفلین(شرکاءومہمان) ایسے لوگوں بھی خلاف ہو جاتے ہیں جن کا اس سارے فساد سے بالکل کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
میں نے احمد رضا بریلوی مرحوم کے اہل دیوبند کے حوالے سے فتویٰ تکفیر کے جواب میں دیو بند کے عقائد پر ایک کتاب دیکھی تھی، پڑھ کر سمجھ نہیں آتا تھا کہ پھر آخر دونوں میں وجہ تنازعہ کیا باقی رہ جاتی ہے ! ابھی سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ جس زمانے میں حسام الحرمین سامنے آئ اس زمانے میں حجاز مقدس و سرزمین عرب پر خوش عقیدہ سنی مسلمانوں کی حکومت بصورت خلافت عثمانیہ قائم تھی اور حرمین شریفین میں اسی مسلک کے مفتیان برسر منبر و مسند تھے۔ ایسے میں حرمین شریفین کے اکابر علماء کا مسلک دیوبند کے پیروکاروں کو کافر قرار دے دینا دیوبندی مسلک و حضرات کے لئے قابل قبول نہ تھا کیوں کہ سر زمین حجاز سے ایسے فتوی کی آمد ہند سے مسلک دیوبند کے مکمل انخلا و تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی تھی. لیکن جلد ہی واقعات نے پلٹا کھایا اور انگریزوں کی سازشوں اور عربوں کی غداری اور بیغیرتی کی وجہ سے خلافت عثمانیہ کا تختہ الٹ گیا۔ اب حجاز مقدس میں انگریزی استعمار کے سایہ میں وہابی مسلک کی حکومت تھی جن کے لئے وہ عقائد و جملے جن پر احمد رضا بریلوی نے فتویٰ کفر حاصل کیا تھا زیادہ پریشانی کا سبب نہ تھے۔ گویا وہ خلیج پاٹنے کا جو سبب تھا ، حجاز میں حکومت کی تبدیلی سے ختم ہو گیا اور بعد میں جیسا کہ ہم نے دیکھا کروڑوں ڈالر کی سالانہ امداد سعودی حکومت کی جانب سے پاکستان میں موجود دیوبندی اور اہل حدیث مدارس کو فراہم ہونے لگی گویا مذہبی اختلافات کا وہ سلسلسہ جو دیوبند، بریلوی اور وہابی کے نام سے انگریز سرکار کے دور میں پیدا کیا گیا تھا اب اس میں مالی مفادات بھی شامل ہو چکے ہیں۔
بہن ، آپ نے جس اعتراض کا جواب ارسال کیا تھا وہ مراسلہ بہ نفسہُ حذف کر دیا گیا ہے اس لئے آپ کے ارسال کردہ جواب کی گنجائش نہیں بنتی تھی۔یہ درست کہ اس کی منظوری میں نے دی تھی لیکن آج اس دھاگے کی کانٹ چھانٹ کی گئی ہے اور غیر ضروری مواد ختم کر دیا گیا ہے۔كل ميرا ايك مراسلہ منظورى كے بعد دوبارہ غائب كر ديا گيا حالاں كہ اس ميں كوئى نئى بحث چھيڑی نہيں گئی تھی بلكہ پہلے سے موجود اعتراضات پر دوسرى جانب كا موقف پيش کيا گيا تھا ۔
اس مراسلے كو ارسال كرنے كے بعد ديكھا تو دھاگے ميں تنبيہ آ چکی تھی جب كہ ميرا مراسلہ تنبيہ سے قبل كا تھا ۔