مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ، - ڈاکٹر مخدوم محمد حسین

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی شروعات مروجہ اسلامی علوم اور سکول کے نصاب سے کی اور پھر ہر طرح کے ادوار سے گزرتے ہوئے بین الاقوامی طور پر رائج علوم میں کامل دسترس حاصل کی۔ اس دوران میں وہ مشر ق اور مغرب کے فلاسفہ‘ حکماء‘دانش مندوں اور داناں کے علوم سے بھی بہرہ مند ہوئے ۔اپنے ممتاز ہم عصر وطنی اورغیر وطنی دانشوروں سے بالواسطہ یا بلا واسطہ ملاقات کی اور کسبِ فیض کیا، لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کے اندر اس ضمن میں جو ہمت اور شوق رکھا تھاوہ ان کو مسلسل اضطراب میں رکھے ہوئے تھا جس کی بدولت ان کے علم کے حصول کی جستجو کو قرار نہیں تھا۔ لہذاا ُنہیں کہنا پڑگیاکہ
پڑھ لیے میں نے علوم ِ شرق و غرب روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب
ایسے میں مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کی روح ِ پُر فتوح سے آشنائی کی صورت میں ان کی روحانی استمداد ہوئی ۔پھر کیاتھا‘ فیض کا ایک دریا ان کے اندر رواں ہوگیا اور آنے والے دور میں ہم نے اسی دریا کو سمندر بنتے دیکھا اور یوں وہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اپنی قوم ‘ملت اور اُمت کے سامنے آیاجو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محسن‘ مصوّراور مفکر کے طور پر یادرکھاجائے گا۔ جس ذات کے نورِ فیض سے اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی روح کا درد و کرب دور ہوا وہ ہیں مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ یعنی مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ جن کے بارے میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے بڑے واضح الفاظ میں تعارف کرایا۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے مشہور مجموعہ کلام ”بالِ جبریل“ میں ایک طویل نظم ”پیرومرید“ کے نام سے موجود ہے۔ اس میں وہ خود کو ”مرید ِ ہندی“ اور مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کو ”پیرِ رومی رحمتہ اللہ علیہ “ کہتے ہیں ۔ نظم کا فارمیٹ کچھ اس طرح سے ہے کہ علامہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ سے اُر دو اشعار میں درخواست کرتے ہیں اور پھر جواب کے طور پر فارسی شعر درج ہیں۔ اس طرح اپنی ذات سے لے کر اُمتِ مسلمہ کی زبوں حالی تک تمام موضوعات پر سوالیہ اشعار اور ان کے جوابات موجود ہیں۔ یہ کلام اپنی جگہ ایک شاہکار مکالمہ ہے۔ نظم کے اختتام پر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ یعنی مریدِ ہندی ان کے گوش گزار کرتے ہیں کہ
ہند میں اب نور ہے باقی نہ سوز اہل ِ دل اس دیس میں ہیں تیرہ روز​
تو پیر رومی رحمتہ اللہ علیہ یہ جواب عنائت فرماتے ہیں :​
کار ِ مرداں روشنی و گرمی است کارِ دوناں حیلہ و بے شرمی است​
اس سلسلے میں حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے پیر ِ رومی رحمتہ اللہ علیہ سے رابطہ کیا‘ حالانکہ پیر ِ رومی رحمتہ اللہ علیہ کوئی زندہ انسان نہیں تھے اور پیر ِ رومی رحمتہ اللہ علیہ کا فیض اقبال کے اندر بولا‘ قوم نے دیکھا‘ قوم نے سوچا‘ قوم نے فیصلے کیے‘ فیصلے کامیابیوں سے سرفراز ہوئے اور آج وہی فیصلے ہمارے”ہم“ ہونے کا جواز ہیں“
پیر رومی نے ”مرید ِ ہندی “کی کس طرح دستگیری کی ‘ اس کے متعلق حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: ” پیر ِ رومی رحمتہ اللہ علیہ کی دستگیری میں اقبال جب عرفانِ ذات کے سفر پر روانہ ہوا تو اُ س پر کائنات کے راز کچھ اس طرح منکشف ہونا شروع ہوئے جیسے کہ اس کے سامنے عجائبات کی ایک کتاب کھل گئی ہو ۔ اس کا ذوق ِ جمال اُسے سرور و وجدان کی منزلیں طے کراتا ہوا اُسے بارگاہِ حُسن ِ مطلق تک لے آیا اور اسے کائنات ایک مرقّع ِ جمال نظر آئی ۔ اُس نے دیکھا کہ موتی ‘ قطرہ ‘ شبنم اور ستارہ ایک ہی جلوے کے مختلف مظاہر ہیں “
ہمارے دَور کے دانش وحکمت اور معرفت کے امام جناب ِ واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی گفتگو اور تحریرمیں مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار بھی کیاہے اور ان کی تعلیمات کو آسان الفاظ میں آج کے قارئین کے لیے پیش بھی کیاہے تاکہ آج کے
دور میں فارسی سے ناواقف لوگوں کو اس حوضِ فیض سے بھی سیراب کیاجائے جس نے ایک زمانے کے دل موہ رکھے ہیں۔ مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی کے ایام سے لے کر تاحال ان کی تعلیمات ہرملک‘ ہر مذہب اور مسلمانوں کی غالب اکثریت میں نہایت مقبول ہیں او رضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے نقاد یہ مانتے ہیں کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ دوسرے نقاد جو کہ زیادہ محتاط رویہ اپناتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ دنیا کے چند بڑے شاعروں میں سے ایک ہیں ۔ ان کے تیس ہزار سے زائد اشعار ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں پوری دنیا میں جو کتابیں سب سے زیادہ چھپی ہیں ان میں ”مثنوی مولانا روم“ سر فہرست ہے۔ خصوصاً امریکا میںیہ ”بیسٹ سیلر‘ ‘ ہے کہ جہاں پر اسلام دشمن عناصر کی بالا دستی ہے۔
آپ افغانستان کے شہر بلخ میں 30 ستمبر 1207ءمیں پیدا ہوئے ۔ محمد نام تھا۔ شیخ بہاوالدین آپ کے والدِ گرامی ایک بلند پایہ صوفی اور عالم تھے۔ جلال الدین آپ کا لقب تھا۔ زندگی کے آخری چند سال ترکی کے مشہو ر شہر قونیہ میں گزارے۔ آپ کی ساری زندگی سفر میں گزری۔ بلخ سے لارندہ‘ پھر دمشق اور حلب ،اس کے بعد بغداد اور پھر اپنے وطن حجاز میں جا پہنچے ۔ یہ آپ کا اصلی وطن تھا کیونکہ آپ نسلاً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہہُ کی اولاد میں سے ہیں۔آخر کار قونیہ میں قیام پذیر ہوئے۔ وصال مبارک 17 دسمبر 1273ءمیں ہوا۔قونیہ میں آپ کا مزار شریف آج بھی مقناطیس کی طرح ساری دنیا کے صاحبانِ فکر و نظر کے قلوب کو کھینچ رہاہے۔ جیسا کہ ابھی بیان کیاگیاہے کہ آپ کے اشعار تعداد میں دنیا کے کسی بھی شاعر کے اشعار سے بہت ہی زیادہ ہیں اور آپ کا سب سے مشہور مجموعہ”مثنوی“ ہے۔”مثنوی“ کے بارے میں جناب ِ واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ ”وہ ایسی مثنوی ہے کہ قلوب کی خشک زمین پر عشق ِ حقیقت کی نورانی برسات ہے۔ مثنوی صاحب ِ حال بناتی ہے۔پیر رومی رحمتہ اللہ علیہ کی محبت میں ”مرید ِ ہندی “ صاحب ِ حال ہوگیا‘ بلکہ صاحب ِ اقبال باکمال ہوگیا“
اسی طر ح ان کی تحریروں اور گفتگو میں”مثنوی“ کی توصیف اور تعریف میں کئی حوالے ملتے ہیں جن سے مثنوی کی توقیر اور تاثیر کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کس پائے کی ہے اور اس کادائرہ تاثیر ایک فرد کی باطن کی دنیا سے لے کر دنیا کے مختلف افراد کے اذہان او رقلوب تک پھیلاہوا ہے۔ یہی وہ تاثیر ہے جو مثنوی اپنے پڑھنے والوں کے دلوں پر چھوڑتی ہے اور یوں اسے جگہ جگہ ‘قریہ قریہ پذیرائی ملتی ہے۔ جناب ِ واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ ”مثنوی مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ انفرادی ضمیر کو زندہ رکھنے کے لیے اکسیر ہے‘ کیمیا ہے اور عشق کو زندگی دینے والی کتاب ہے یہ مثنوی ۔اگر عشق زندہ ہوتو نفس کا اثر ختم ہوجاتا ہے“
مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ اپنے زمانہ کے مشہور عالم تھے۔ فقرومعرفت کی نعمت سے بھی وہ آشنا تھے۔اپنے شیخ شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ سے ابھی ان کی ملاقات ہونی تھی جنہوں نے مولانا رحمتہ اللہ علیہ کو یہ فیض عطا فرمایاکہ پھر وہ ہر ہر عالم میں مشہور ہوگئے۔ اس ملاقات کے بارے میں جناب ِ واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ کا کہناہے کہ ”ایک صاحب ِ حال مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ سے ملا۔ بولا ”مولانا! یہ کیا علم ہے؟“ مولانا نے کہا”اسے آپ نہیں جانتے“۔ صاحب ِحال نے اپنا علم ظاہر کیا۔ مولانابولے” یہ کیا علم ہے؟“ صاحب ِ حال بولا ”جسے تم نہیں جانتے“۔ بس پھر اس کے بعد مولانا روم غلام ِ شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ ہو کے رہ گئے۔ مولانا رحمتہ اللہ علیہ بھی صاحب ِ حال ہو گئے‘ صاحب ِ مثنوی ہوگئے“
اسی واقعہ کو ایک اور جگہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے یوں بیان فرمایا ہے”مولانا رحمتہ اللہ علیہ بڑے عالمِ دین تھے اور حدیث وفقہ پڑھاتے تھے۔ ان کا اپنا مدرسہ تھا۔ وہاں ایک دن پڑھا رہے تھے کہ ایک درویش آگیا۔ وہ ایک مجذوب درویش تھا۔اس نے کہا یہ کتابیں کیا ہیں؟مولانا نے کہا کہ تو کیا جانے کہ یہ کیاہے؟تو اسے جانے دے اور جا۔ مجذوب نے کہا کہ اچھا‘ اور پھر یہ کام کیاکہ ساری کتابیں اٹھا کر تالاب کے پانی میں ڈال دیں جو کہ مسجد کے صحن میں تھا۔مولانا نے چیخیں لگانی شروع کردیں کہ میری زندگی بھر کی محنت چلی گئی اور میری ساری زندگی کا حاصل غرق ہوگیا۔مولانا جب بہت روئے تو درویش نے ہاتھ ڈالا اور خشک کتابیں پانی سے نکال لیں۔ مولانا حیران رہ گئے اور کہا کہ یہ کیاہے؟ درویش نے کہا کہ تو کیاجانے کہ یہ کیا ہے؟ تو اپنا کاروبار کر۔اتنا کہہ کر وہ آگے چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ دوتین سال مولانا اس کے پیچھے پیچھے اور وہ آگے چلتے رہے۔ بڑی مشکل سے مولانا نے انہیں جا کے پکڑا کہ خدا کے لیے مجھے معاف کردیں‘ میں تین سال سے آپ کے پیچھے پھر رہا ہوں کہ مجھے اپنا بنالو۔ کہنے لگے” تو صرف تین سال سے میرے پیچھے ہے اور میں تو پچیس سال سے تیری تلاش میں ہوں“۔
تصوف اور فقر کی جب تعلیم دی جاتی ہے تو طالب کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ یہ صرف علم نہیں ہے بلکہ عمل ہے اور مشاہدہ ہے۔ اور یہ مشاہدہ محبت کی بدولت اور اس کے توسّل سے آتا ہے۔ اور سب سے بڑی محبت حضور پاک کی ہے جو کہ مرید کو اپنے شیخ کے فیض ِ نظر سے ملتی ہے۔ اسی محبت سے اس پر یہ راز کھلتا ہے کہ اﷲ کا اپنا چہرہ تو ہے ہی نہیں کیونکہ وہ اس طرح کی چیزوں سے منزّہ ہے‘ اس لیے حضور پاک صلعم کے چہرہ مبارک کو نشان ِوجہہ اﷲ ۔اس طرح حق کا طالب یہ درجے طے کرتا ہے۔ اس بات کو حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ نے مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کے حوالے سے اس طرح بیان فرمایا ہے :
”حضورِ اکرم صلعم کو نورِ خدا کہا جاتا ہے اور ولی چونکہ مظہرِ عشق ِ نبی صلعم ہوتا ہے‘ اُسے مظہرِ نبی یا مظہرِ نورِ خدا کہا جاسکتا ہے ۔ پیرِ کامل کو عشق میں صورتِ ظلِ اِلٰہ کہنا جائز ہے۔ مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو یوں کہاہے:
ہر کہ پیر و ذات ِ حق را یک ندید نے مرید و نے مرید و نے مرید“
محبت یا عشق ایسا جذبہ ہے ‘ ایسی قوت ہے کہ جس کے ذریعے حقیقت کا طالب بڑے بڑے مشکل مسئلے بڑی آسانی سے طے کر جاتا ہے۔ اپنے شیخ‘ پیر‘ مرشد‘ گُرو یا استاد کی محبت اُسے اس ذات کے علم اور اس ذات کے فیض کے حصول کا امید وار بلکہ حق دار بناتی ہے اور یوں اس پر معرفت و طریقت کے راستے آسان ہوتے چلے جاتے ہیں۔ طالب کا شیخ اس کو اپنے طریقے پر چلاتاہے‘ علم عطا فرماتا ہے اور عمل کے راستے آسان کرتاہے۔ یوں وہ اپنے مرید کو شاخِ ثمر بار بناتا ہے۔ جناب واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ نے مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کے ا س طریقہ کو بہت پسند بھی کیا ہے اور اسے اکسیر بھی ثابت کیاہے کہ جس کے ذریعے انہوں نے مردہ دلوں اور روحوں میں زندگی کی نئی رَمق داخل کی۔ اس طرح یہ نفوس پاک ہوتے گئے اور اپنے اپنے حصّے کا فیض پاتے گئے۔ اس بارے میں جناب ِ واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ نے کہانیوں کے روپ میں معرفت کے مسائل حل کیے۔وہ علم باطن اور علم ِ روح کے اظہار کے لیے کہانیاں لکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر شوق مرجائے تو انسان کے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ عشق کو مولانا ”طبیبِ جملہ علت ہائے ما“کہتے ہیں۔ ان کی ہرکہانی پُرمغز او رپُرسوز ہے۔ وہ درسِ باطن دے رہے ہیں اور کہانیاں بیان کررہے ہیں۔ نکتے کھولتے چلے جاتے ہیں اور بات کی وضاحت ہوتی چلی جاتی ہے۔ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو علم کا خزانہ پیر رومی رحمتہ اللہ علیہ کے فیض سے حاصل ہوا۔ رومی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں :” مریض ِ محبت کو اگر چارہ ساز سے نسبت قلبی نہ ہو تو سب چارہ سازی حجاب ہے“
صوفیاءکرام کی تعلیمات کے سلسلے میں ایک اہم تعلیم اس امر کا مشاہدہ دل میں بٹھادیناہے کہ انسان آخر ایک دن اﷲ کی طرف لوٹ جائے گا کیونکہ وہ اﷲ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف سے آیاہے۔ روزمرہ زندگی کے معمولات اور مشغولات میں انسان اس قدر کھوجاتا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے روزانہ کئی لوگوں کو مرتے دیکھتا ہے‘ جنازے میں شرکت کرتا ہے بلکہ اُن کو ان کے مقابر میں اتارنے کے لیے قبرستان میں موجود ہوتا ہے مگر اس کے دل میں یہ خیال بھولے سے بھی نہیں آتا کہ آخر ایک دن یہ پراسیس اس کے ساتھ بھی ہونا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ مختلف النوع نفسانی آلائشوں سے اس کے دل پر زنگ کا ایک پردہ چڑھ جاتا ہے جو اسے حق اور حقیقت کی موجودگی کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ شروع شروع میں یہ حجاب عارضی ہوتا ہے اور اس کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ کوئی صاحب ِ نظر اس شخص کی تربیت کرکے اسے دور کرسکتا ہے۔ بعد میں یہ پردہ پکا ہوجاتا ہے اور پھر قلب پر ایک ایسی مہر لگ جاتی ہے کہ جو انسان کو ہمیشہ کے لیے غفلت اور طاغوت میں داخل کردیتی ہے۔ غفلت کے اس پردے کو چاک کرنے کے لیے پیرِ کامل اپنے مرید کو ایک خاص کیفیت کا مشاہدہ کراتاہے جس کے ذریعے اس کا قلب زندہ اور بیدار ہوجاتا ہے۔ اس کیفیت کو صوفیاءکرام موتوا قبل ان تموتو یعنی ”موت سے پہلے مرجانا“کہتے ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ اور دقیق مسئلہ ہے جو عام اذہان کی سمجھ اور بس کی بات نہیں۔ جب اس سلسلے میںجناب ِ واصف علی واصف سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اس کی وضاحت میں مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کی یہ حکایت اس طرح بیان فرمائی:
”ایک آدمی نے طوطا رکھا ہوا تھا۔ طوطا باتیں کرتا تھا۔اس آدمی نے کہا کہ میں دور کے سفر پر جارہاہوں‘ وہاں سے کوئی چیز منگوانی ہو تو بتا۔ طوطے نے کہا کہ وہاں تو طوطوں کا جنگل ہے‘ وہاں ہمارے گُرو رہتے ہیں‘ ہمارے ساتھی رہتے ہیں‘ وہاں جانااور گرو طوطے کو میرا سلام کہنااور کہنا کہ ایک غلام طوطا‘ پنجرے میں رہنے والا ‘ غلامی میں پابند‘ پابند ِ قفس ‘ آپ کے آزاد طوطوں کو سلام کرتا ہے۔ سوداگر وہاں پہنچا اور اس نے جاکر یہ پیغام دیا۔ اچانک جنگل میںپھڑ پھڑ کی آواز آئی‘ ایک طوطا گِرا‘ دوسرا گِرا اور پھر سارا جنگل ہی مرگیا۔سوداگر بڑاحیران کہ یہ پیغام کیاتھا‘ قیامت ہی تھی۔ اداس ہوکے چلا آیا۔ واپسی پر طوطے نے پوچھا کہ کیا میرا سلام دیاتھا؟اس نے کہا کہ بڑی اداس بات ہے‘ سلام تو میں نے پہنچا دیا مگر تیرا گرو مرگیا اور سارے چیلے بھی مر گئے۔ اتنا سننا تھا کہ وہ طوطا بھی مرگیا۔سوداگر کو بڑا افسوس ہوا۔ اس نے مردہ طوطے کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ طوطا فوراً اُڑگیا اور شاخ پر بیٹھ گیا۔ اس نے پوچھا یہ کیا؟طوطے نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میں نے اپنے گُرو طوطے سے پوچھاتھا کہ پنجرے سے بچنے کا طریقہ بتا۔اس نے کہا کہ مرنے سے پہلے مرجا۔ اور جب میں مرنے سے پہلے مرگیا تو پنجرے سے بچ گیا“
فارسی زبان کا دامن صوفیائے کرام کے کلام‘ نگارشات‘ خطوط‘ خطبات‘ ملفوظات اوراسی طرح ادب کی دوسری اصناف سے مالا مال ہے۔ بلکہ یہ کہنا نہایت مناسب ہوگا کہ دوسری بڑی زبانوں اور علاقائی زبانوں کا اصل ورثہ ان صوفیاءکے فکر وفن کی کاوشوںسے آباد ہے۔ صوفیائے کرام کے ہاں علم حاصل کرنے اور علم پھیلانے کی ایک نہایت ہی مضبوط روایت موجود ہے۔ جتنے بھی بڑے محترم صوفیائے کرام کا ذکر کیاجائے تو ان کے سلسلے کے نظام میں ایک مضبوط اور موثر درس گاہ کا ذکر بھی ضرور ملے گا جو علم اور نور پھیلانے کا کام کرتی تھی۔ ترکی‘ ایران‘ وسطی ایشیا‘ افغانستان اور برصغیر پاک وہند کے وسیع علاقے میںصوفیائے کرام کی یہ دانش گاہیں جگہ جگہ ملیں گی ۔ اُن کے نصاب کا جائزہ لیاجائے تومثنوی مولاناروم رحمتہ اللہ علیہ ان کا ایسا جز تھا جس کے بغیر تعلیم نامکمل تھی۔ بڑے بڑے برگزیدہ اور جید اولیائے کرام بذات خود مثنوی کا درس دیا کرتے اور اس کی تفہیم وتوضیح فرماتے۔ جن علاقوں میں فارسی نہیں جانی جاتی تھی وہاں مثنوی کے ترجمے اور ریفرنس تعلیم کیے جاتے تھے۔ مثنوی کے ظہور میںآنے کے بعد کی صوفی نگارشات میں بکثرت حوالے مثنوی ہی سے دیے جاتے تھے۔
جناب ِ واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ چونکہ مختلف زبانوںپر دسترس رکھتے تھے اس لیے آپ کے ہاں بھی مثنوی سے بکثرت حوالہ جات موجود ہیں۔ ان میں مولانا رحمتہ اللہ علیہ کا صرف ایک عالم دین ہونے سے صوفی بننے تک کا واقعہ کثرت سے ذکر میں آتا ہے جس میں ان کی اپنے شیخ یعنی شمس تبریز سے پہلی ملاقات کا ذکر ہے۔ پھر مثنوی کے اشعار سے اپنی گفتگو اور تحریر کو سجاتے تھے۔ چند اشعار تو اس قدر پسند تھے کہ کئی جگہ ان کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً
بشنو از نے حکایت می کُند و ز جدائی ہا شکایت می کند
مثنوی کی چھ ضخیم جلدیں ہیں۔ یہ شعر مثنوی کا اوپننگ شعر ہے او رپہلی جلد میں موجود ہے۔ ”نَے“ کا لفظ فارسی زبا ن میں بانس اور بانسری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تم سنو کہ یہ بانسری کیا کہانی سنا رہی ہے‘ دراصل یہ اُس جدائی کی شکایت کررہی ہے جو اُسے جنگل کے اپنے بانس سے ہوئی ہے کیونکہ اسے بانس سے کاٹ کے اور جدا کرکے یہاں لایا گیا ہے اور جب بجا نے والا اسے بجاتا ہے تو جدائی کی یہ درد بھری آواز اس کے اندر سے نکل کر ہم تک پہنچتی ہے۔ یہاں پر جناب ِ واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
”…. یہ جلوہ تھا جو مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کو ملا۔ اس جلوے کی خوبی یہ ہے کہ وہ شخص ماننے والا ہوتا ہے‘ عز ت کرنے والا ہوتا ہے‘ فراق کی آگ میں جلنے والا ہوتا ہے۔بنسری کی آواز اس کی جنگل کے پیڑ سے فراق کی آواز ہے۔ تو بنسری کیا کہہ رہی ہے؟ یہ نغمہ کہاں سے آگیا؟ یہ سوز کہاں سے آگیا؟ بنسری درد ‘ سوز اور فراق کی داستان کہہ رہی ہے“
صوفیائے کرام اپنے اﷲ اور رسول اﷲ صل اللھ علیھ وسلم کے فرامین سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ جب کوئی انسان اپنے اﷲ کا غلام بن جاتا ہے او رصرف اُسی کا ہوجاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس پر اپنے خاص کرم کا نزول فرماتا ہے‘ پھر وہ اﷲ کے دیے ہوئے ہاتھ سے کام کرتا ہے‘ اس کی دی ہوئی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اس کی دی ہوئی زبان سے بولتا ہے۔یہ مقام اﷲ اپنی رضا اور اِذن سے کبھی کبھی کسی کسی کو دیتا ہے۔ جب اس کیفیت کے بارے میں جناب ِ واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیاجاتا تو آپ بڑی صراحت سے اسے بیان فرماتے اور بیان کے دوران مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کا یہ شعر یادآجاتا تھا:
گفتہِ اُو گفتہِ اﷲ بود گرچہ از حلقوم عبداﷲ بود
” اُس کا بولا ہوا ایسے ہے جیسے کہ اﷲ کی طرف سے بولا گیا ہو جب کہ یہ اﷲ کے ایک بندے کے حلق سے ادا ہو رہاہوتاہے“ تو یہ ہے عطا کرنے والے اﷲ کی شان اور حاصل کرنے والے خاص و کامل اﷲ والوں کی شان۔
اسی طرح آپ کی نگارشات میں مولانا روم کے اشعار اور بیان کردہ حکایات کثرت سے ملتی ہیں۔اس سے دیگر رموز کے علاوہ دو باتیںواضح طور پر ثابت ہوجاتی ہیں‘ ایک تو قبلہ واصف صاحب کی بزرگان دین سے محبت اور دوسرا اُن کی تعلیمات کا فروغ۔ محبت اور عقیدت سے لبریز حکمت و دانش کا یہ علم جب لوگوں تک پہنچتا ہے تو ان پر اچھے عمل مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضر میں جنابِ واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ کی فکر و دانش کو بے پناہ پذیرائی ملی ہے اور اس نے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ذہنوں اور دلوں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ اس طرح کا علم بلا امتیاز ہر طبقے‘ ہر فرقے‘ ہر مکتبہ¿ فکر اور ہر عمر کے نفوس کے لیے نفع بخش ہے اور نور پھیلانے کا باعث بن رہاہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج کے دور میں اس کی بہت ہی زیادہ ضرورت ہے۔
تذکرہِ رومی رحمتہ اللہ علیہ در بیانِِِ واصف رحمتہ اللہ علیہ
ڈاکٹر مخدوم محمد حسین
مضمون بشکریہ
http://www.wasifkhayal.com/edition-8/molana-rome-and-wasif-ali-wasif/
 
Top