مولانا فضل الرحمان کا حکومت کے خلاف ’’ملین مارچ ‘‘ تحریک چلانے کا فیصلہ

جاسم محمد

محفلین
مولانا فضل الرحمان کا حکومت کے خلاف ’’ملین مارچ ‘‘ تحریک چلانے کا فیصلہ
کل بدین میں جلسہ عام سے خطاب میں ملین مارچ کا لائحہ عمل کا اعلان کریں گے
pic_22bc9_1536246515.jpg._3

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 فروری2019ء) جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے کل ( اتوار کو ) سندھ میں بدین جلسے میں حکومت کے خلاف ملین مارچ تحریک چلانے کے حوالے سے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے ۔
تفصیلات کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے آخر کار حکومت کے خلاف ملین مارچ کی تحریک چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کا آغاز وہ آج ( اتوار کو ) سندھ سے کریں گے ۔

مولانا فضل الرحمان آج ( اتوار کو ) سندھ کے شہر بدین کے علاقے ٹنڈو غلام علی میں حکومت کے خلاف ملین مارچ تحریک کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے ۔ واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمان نے حالیہ دنوں سابق صدر آصف علی زرداری سے ایک دن میں دو ملاقاتیں کیں جس میں حکومت کی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ۔
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا فضل الرحمان آخر کیا چاہتے ہیں ؟
21/02/2019 علی انس گھانگھرو



کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان بھی عجیب آدمی ہیں، اقتدار میں رہتے ہیں تو خاموش رہتے ہیں اور جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو مچھلی کی طرح تڑپتے رہتے ہیں۔ کچھ روز قبل سابق صدر پرویز مشرف نے یہاں تک کہ دیا کہ مولانا فضل الرحمن حکومت کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ وہ جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو حکومت گرانے کے لئے کوشاں ہوتے ہیں۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان کے لئے یہ بات مشہور ہے کہ ہمارے بغیر حکومت بن نہیں سکتی اگر بن گئی تو چل نہیں سکتی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن بینظر بھٹو شہید کے بعد پاکستان کے سب سے زیادہ مدبر سیاسی بصیرت رکھنے والے وہ سیانے واحد سیاستدان ہیں جو بہتر طریقے سے جانتے ہیں کہ کون سا پتا کب کھیلنا ہے اور کس طرح کھیلنا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار تو یہاں تک کہ دیتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن میں وہ خوبیاں ہیں کہ وہ چاہیں تو آگ اور پانی کو ایک ساتھ چلا سکتے ہیں۔ مولانا صاحب چاہیں تو شیر اور بکری کو ایک جگہ سے پانی پلا سکتے ہیں۔

اس وقت مولانا فضل الرحمن موجودہ حکومت کے خلاف اکیلے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ نہ پیپلزپارٹی ہے نہ ہی ن لیگ، دونوں بڑی جماعتیں جس وقت حکومتی احتساب کے عمل سے گزر ہی ہیں اس وقت مولانا فضل الرحمان تنہا اپوزیشن کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ اس وقت حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ میدان جنگ ہیں، ملک بھر میں احتجاج کے ملین مارچ سے کیا وہ حکومت کا تختہ الٹ دیں گے یا نہیں، کیا وجھ ہے کہ مولانا فضل الرحمن 25 جولائی 2018 کے انتخابات میں اپنی اور متحدہ مجلس عمل کی مبینہ شکست کے بعد دل شکستہ ہو کر عمران خان کی نئی تبدیلی سرکار کے خلاف میدان عمل میں ہیں۔

کہا تو یہی بھی جا رہا ہے کہ اب مولانا فضل الرحمن صرف اقتدار کے لئے لڑ رہے ہیں، اور اسلام آباد جانے کے لئے جس طرح وہ اسلام کے راستے سے اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں، اب وہ اسلام آباد بھی نہیں پہنچ پا رہے۔ ایسے ایسے سوالات ذہنوں میں جنم لے رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کو ہو کیا گیا ہے، آخر وہ عمران خان کی حکومت کو چلنے کیوں نہیں دے رہے ہیں۔ اگر وزیر اعظم عمران خان سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو کرپشن کیس میں جیل میں ڈال سکتے ہیں، اور با اثر سیاستدان سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف جے آئی ٹی بن سکتی ہے اور اسے عدالتوں میں رسوا کروا سکتے ہیں، تو اب تک انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے خلاف ایک بھی کیس نہیں بنایا۔

نہ ان کے خلاف کوئی جھوٹا مقدمہ درج کروایا ہے، مولانا فضل الرحمن اس وقت کرپشن کے خلاف چلنے والی بے رحم آپریشن میں کرپٹ حکمرانوں کو بچانے اور حکومت گرانے پر بضد ہیں۔ مولانا فضل الرحمان بلا وجہ حکومت کے خلاف ملین مارچ کر رہے ہیں اور قوم کو گمراہ کر رہے ہیں، کہ یہ حکومت یہودی لابی کی حکومت ہے، ہم اسے چلنے نہیں دیں گے۔ سب یہی کہتے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن جو بڑے پائے کہ مایہ ناز سیاسی بصیرت رکھنے والے مدبر سیاستدان ہیں وہ کر کیا رہے ہیں۔

ملکی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ پنگا لینے کا وہ انجام جان سکتے ہیں۔ شاید عالمی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ پنگا لینے والے شہید ذوالفقار علی بھٹو، بینظر بھٹو، ضیاء الحق، حافظ الاسد، شاہ فیصل، کرنل قذافی، صدام حسین جیسی اور کئی طاقتور شخصیتیں بھی اپنا وجود بچا نہ سکیں۔ مولانا فضل الرحمن پر تو پہلے بھی تین بار خودکش حملے اور بم دھماکے ہو چکے ہیں، یہ کس کھیت کی مولی ہیں جو نہ موت سے ڈرتے ہیں نہ کسی انتقامی کارروائی سے۔

اس وقت جب نواز شریف، شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ بڑے بڑے سیاستدان این آر او لینے کے چکر میں ہیں، اس وقت انہیں حکومت سے نہ ڈھیل مل رہی ہے نہ ہی ڈیل کی جا رہی ہے۔ ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا، کراچی میں ناموس رسالت ملین مارچ کا اعلان کیا، لاہور، پشاور، مظفر گڑھ، سکھر اور ڈیرہ اسماعیل خان میں کامیاب ملین مارچ کیے گئے ہیں۔ جس میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد اور کارکنوں نے شرکت کی ہے، شاید حکومت مخالف مظاہروں کی وجہ سے میڈیا سے بھی انہیں وہ کوریج نہیں دی جا رہی ہے۔ اب وہ 17 مردان میں ملین مارچ کرنے کے بعد سندھ کا رخ کر رہے ہیں جہاں وہ 24 مارچ کو بدین میں ملین مارچ کریں گے اس ملین مارچ میں حکومت گرانے کے لئے اسلام آباد میں پڑاؤ ڈالنے کا اعلان کریں گے۔

ہم جب مولانا فضل الرحمان سے شکوہ کرتے ہیں آپ اتنے بڑے پائے کے مایہ ناز سیاستدان آپ اقتدار کے لئے کیوں پریشان ہیں، آپ حکومت اور حکمرانوں کے لئے بلا وجہ ملین مارچ کر رہے ہیں آپ کیوں مارچ مہینے میں اسلام آباد میں ملین مارچ کرکے حکومت کو گرانا چاہتے ہیں؟ ہمیں ہر بار مولانا فضل الرحمن کا یہی موقف ملنے کو ملتا ہے کہ میرا وزیر اعظم عمران خان سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے نہ ہی میں اقتدار کے لئے جدوجہد کر رہا ہوں۔ آج سے 10 سال پہلے ہی میں واحد سیاستدان تھا جنہوں نے کہا تھا کہ عمران خان یہودی لابی کا ایجنٹ ہے، وہ اسرائیل کی ایجنڈے پر پاکستان میں مسلط کیے گئے ہیں، اور ان کا ایجنڈا پاکستان میں اسلامی آئین، ناموس رسالت قانون، ختم نبوت قانون کو تبدیل کرکے قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کروانا ہے۔

مولانا فضل الرحمن اس بات پر تو اب بضد ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے آسیہ مسیح کو گستاخانہ کیس میں باعزت بری کرنا بھی بیرونی قوتوں کا ایجنڈا تھا۔ مولانا فضل الرحمان یہ بھی کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو میرا بس چلے تو میں ایک دن بھی چلنے نہ دوں۔ یہ حکومت جعلی مینڈیٹ پر بنائی گئی ہے۔

ہم نے جب مولانا فضل الرحمن سے پوچھا کہ آپ اسٹبلشمنٹ پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کو جتوایا ہے۔ تو ان کا کہنا تھا کہ الیکشن سے قبل میرے پاس خاص لوگ ملنے کو آئے انہوں نے کہا کہ آپ عمران خان کی مخالفت چھوڑدو اسے یہودی لابی کا ایجنٹ نہ کہو ورنہ ہم آپ کو تنہا کردیں گے اور آپ کی جماعت کو وہاں کھڑا کریں گے جہاں آپ نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن کے الزامات میں کتنی صداقت ہے وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

مولانا فضل الرحمن اب سرعام اسٹبلشمنٹ کو نہ صرف للکارتے ہیں بلکہ عمران خان کی حکومت کو اسٹبلشمنٹ کی ناجائز اولاد بھی کہے ہیں۔ مولانا فضل نے انہیں دھمکی بھی دی ہے کہ آگے مت بڑھو جہاں کھڑے ہو وہیں رک جاؤ ! ہمیں مجبور نہ کرو کہ آپ کی گولیاں ہوں اور ہمارے سینے ہوں ! اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مردان اور بدین ملین مارچ کے بعد مارچ مہینے میں مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد کی طرف ملین مارچ کو حکومت کس طرح روکتی ہے یا نہیں۔ کیوں کہ تحریب لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی سمیت سارے لوگ ریاست سے ٹکر لینے احتجاج کرنے کے جرم میں جیلوں میں قید ہیں۔

حکومت مولانا فضل الرحمان کو اسلام آباد دھرنے تک ڈھیل دیتی ہے یا مولانا فضل الرحمن کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ذرائع کے مطابق اسٹبلشمنٹ اب آہستہ آہستہ عمران خان کی ناکامیوں کی وجھ سے ہاتھ اٹھانے کی موڈ میں ہے اور اب وہ مسلسل مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بھی رابطہ میں ہیں کہ آپ صبر کریں احتجاج نہ کریں۔ کچھ دن پہلے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں مولانا فضل الرحمن نے یہ تاثر دیا تھا کہ ہماری تو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ دوستی ہے، آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ دوستی آگے بڑھتی ہے کہ نہیں!
 

فرقان احمد

محفلین
حکومت گرانے کے لیے ساری اپوزیشن جماعتوں کا اکھٹا ہونا ضروری ہے۔ کوئی ٹھوس جواز بھی ہونا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر، اُدھر سے اشارہ بھی ہونا چاہیے۔ مولانا صاحب سیاسی بیانات دے رہے ہیں اور آپ ان بیانات میں مزید ہوا بھر رہے ہیں۔ :) تاہم، ایک نکتہ اہم ہے اور وہ یہ کہ اگر یہ سب کسی کے اشارے پر کیا جا رہا ہے تو پھر معاملہ مختلف ہو سکتا ہے ؛ اگر ایسا ہے تو پھر ان بیانات کی معنویت واقعی کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
۔ مولانا صاحب سیاسی بیانات دے رہے ہیں اور آپ ان بیانات میں مزید ہوا بھر رہے ہیں۔
۔ کیونکہ ذرائع کے مطابق اسٹبلشمنٹ اب آہستہ آہستہ عمران خان کی ناکامیوں کی وجھ سے ہاتھ اٹھانے کی موڈ میں ہے
پتا نہیں اسٹیبلیشیہ کو عمران خان میں ایسی کونسی ناکامی نظر آ رہی ہے۔
5c6aa6e97ebe8.jpg
 

فرقان احمد

محفلین
پتا نہیں اسٹیبلیشیہ کو عمران خان میں ایسی کونسی ناکامی نظر آ رہی ہے۔
5c6aa6e97ebe8.jpg
اسٹیبلشمنٹ مقبول وزرائے اعظم یا سیاسی طور پر مضبوط شخصیات کو زیادہ دیر تک 'برداشت' نہیں کر سکتی ہے؛ بس یہ نکتہ سمجھ لیں، خوب اچھی طرح سے ۔۔۔ ! :)
 

جاسم محمد

محفلین
بہتر ہو گا کہ آپ انہیں گھٹتی ہوئی مقبولیت کے حوالے سے "یوٹرن" لینے پر ابھاریں۔ :)
جب تک اسٹیبلیشیہ کے "ابو" جنرل قمر جاوید باجوہ عمران خان کی کارکردگی سے خوش ہیں۔ ان کے اقتدار کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔
 
Top