بات مولوی مدن کی
(تحریر : یوسف ثانی)
مولوی اور داڑھی لازم و ملزوم ہیں۔ ہر مولوی داڑھی والا ضرور ہوتا ہے حالانکہ ہر داڑھی والا مولوی نہیں ہوتا۔ مثلاً سکھ اور شیخ صاحب داڑھی ہونے کے باوجود مولوی نہیں ہوتے کیوں کہ :
بڑھائی شیخ نے داڑھی، گرچہ سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
مولوی مدن ہوں یا مولوی عبد القدوس، ہمیں تو بس ایک عدد مولوی درکار ہے، جس پر خاکہ لکھا جا سکے یا بالفاظ دیگر خاکہ اڑایا جا سکے۔ مولوی اور حلوہ دونوں ایک دوسرے کی وجہ شہرت ہیں۔ مشہور ہے کہ ایک مولوی صاحب کسی کے گھر اس کے بچے کو قائدہ پڑھاتے ہوئے بولے : ح سے حلوہ۔۔ ہلوہ نہیں حلوہ۔۔ آواز حلق سے نکالو۔۔۔ حلوہ۔۔۔ اندر زنان خانے سے آواز آئی، مولبی صاب، اب بچے کے حلق سے تو حلوہ نہ نکالو۔ میں آپ کے لئے اور حلوہ بھجواتی ہوں۔
کبھی مولوی علم و فضل کی شان سمجھا جاتا تھا۔ آج کل یہ محض مولانا فضل الرحمن گردانا جاتا ہے۔ یہ پروفیشنلزم کا دور ہے۔ اس دور میں مولوی وہ واحد پروفیشنل ہے۔ جو بہت کم پیسوں میں تیار ہو جاتا ہے۔ البتہ ایک مولوی کو مارنے پر بڑا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ شنید ہے کہ ایک ایک مولوی کو مارنے کے لئے لاکھوں روپے کی سپاری دی جاتی ہے۔ مولوی جب زیر تربیت ہوتا ہے تو پیسے پیسے کو محتاج ہوتا ہے لیکن جب یہ کسی مسجد مکتب کی بنیاد رکھتا ہے تو اس پر پیسہ ہن کی طرح برسنے لگتا ہے۔اور پھر جب یہ پیسوں سے بے نیاز ہو کر اپنے اصل کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یار لوگ پیسہ خرچ کر کے اسے خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اگر ایک مولوی کو مارو تو دس مولوی اور پیدا ہو جاتے ہیں۔ مولوی کے دشمن کتنے احمق ہیں کہ ایک مولوی کو مار کر دس مولوی بھی پیدا کرتے ہیں، اپنی عاقبت بھی خراب کرتے ہیں اور مولوی کو مفت میں شہادت کی سعادت سے بھی نواز دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں کی ریت ہے کہ جب کوئی ناکارہ طالب علم کچھ نہ بن پائے تو استاد بن جاتا ہے کہ : روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر ع، اسی طرح جب کوئی اولاد کسی قابل نظر نہ آئے تو والدین اسے مولوی بنانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تاکہ یہ ازخود کچھ کھا کما سکے۔ حالانکہ تربیتی مدارس میں اسے کھانے کو برائے نام ہی ملتا ہے لیکن جب مولوی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے تو کھانا اس کی کمزوری بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولوی کی صحت کبھی کمزور نہیں ہوتی ۔ وہ کھانے کے بعد میٹھا کھانا کبھی نہیں بھولتا، نتیجہ کے طور پر خوب پھلتا پھولتا ہے۔ ایک اچھا مولوی کھانے کے ذکر سے کبھی بدمزہ نہیں ہوتا حتیٰ کہ گالیاں کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتا۔