ادب دوست
معطل
دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کسی رائے سے پلٹ جائے تو اسے منافقت سے تعبیر کیا جاتا ہے - " اچھی منافقت ہے !! ابھی کیا کہہ رہے تھے ، اور اب بلکل ہی اُلٹی بات کر رہے ہیں" - یہ بات بھی میں نے چورنگی پر ہی سمجھی ہے کہ افزائشِ نسل کی طرح تبدیلیِ رائے میں بھی مناسب وقفہ بہت ضروری ہے - اگر رائے کی تبدیلی میں ایک خاص مدت (جس کا پیمانہ صرف ارشد بھائی کے پاس ہے ) نہ لگے تو یہ منافقت کہلاے گی - مگر ایک رائے سے تائب ہونے ، اور مقررہ عدت گزار لینے کے بعد ، جو رائے قائم کی جائے گی اسے حق شناسی اور شعور و اگہی کی منازل کی فتحیابی کہا جائے گا -
شیخ صاحب کہتے ہیں مولانا اپنے الفاظ گھر سے تول کر لاتے ہیں -اور جب تک یہ "لُٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے" کے مصداق کر نہیں گذرتے محفل میں کوئی چین سے نہیں بیٹھ سکتا یہی وجہ ہے کہ ، اگرکوئی شخص گفتگو کے آغاز میں ہی حق کو پہچان کر اپنی باطل رائے سے تائب ہو بھی جائے تب بھی بحث ختم نہیں ہوتی کیونکہ تشفّیِ دلائل کے لیے ضروری ہے کہ باتوں کے سارے انبار انڈیل دئیے جائیں - اتفاقاََ کسی بات پر اگر طرفین کا موقف ایک ہی ہو تو ذیلی معلومات کے اعتبار سے کوئی ایسا نقطہ ڈھونڈا جاتا ہے جس سے بحث کا آغاز ہو سکے جیسے - اگر یہ بات ہو رہی ہوکہ چنگیزخان نے واقعی ظلم کیا اور سب اس پر متفق ہو جائیں تو اس بات پر بحث ہو جائے گی کہ قبلای خان کو گھٹی کس نے پلائی ؟ جب اس طرح کی علمی بحث ذاتیات پر اختتام پذیر ہو جائے اور احباب چائے کی پیالیاں ہاتھوں میں گھومانا شروع کر دیں یا سگرٹ کا کش لیتے ہوئے نگاہ انگارے پر مرکوز کر دیں تو سمجھ لیں کہ محفل "نشستم گفتم برخاستم" کے آخری مرحلے پر ہے -ایسے میں وہ صاحب جنھیں شکست و ریخت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلا گیا تھا اور جنکی برآمدگی کی کوئی صورت اگلی محفل کے انقعاد تک نظر نہیں آرہی کہتے ہیں " پروفیسر !! ذرا چائے کا تو کہہ دو"
مولانا کا سراپا اتنا پُرنور ہے کے دیکھتے ہی عزت کرنے کو جی چاہتا ہے - مستورات کے معاملے میں بھی یہی نورانی دیوار حائل ہے - میرا ذاتی مشاہدہ ہے کے خواتین صرف دینی مسائل کیلئے مولانا سے مخاطب ہوتی ہیں ورنہ ایک تعظیمی خاموشی اختیار کیے رکھتی ہیں جو خواتین کے بھروسے اور مولانا کے ایمان کی واحد ضامن ہوتی ہے - انپی فطری تمناؤں کے حصول کیلئے اگر مولانا ، بزرگوں کی دعاوں کے حصار سے نکل بھی جائیں تب بھی سراپے کا یہ روحانی ہالہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتا -
اقتباس: چورنگی از حسن علی امام
شیخ صاحب کہتے ہیں مولانا اپنے الفاظ گھر سے تول کر لاتے ہیں -اور جب تک یہ "لُٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے" کے مصداق کر نہیں گذرتے محفل میں کوئی چین سے نہیں بیٹھ سکتا یہی وجہ ہے کہ ، اگرکوئی شخص گفتگو کے آغاز میں ہی حق کو پہچان کر اپنی باطل رائے سے تائب ہو بھی جائے تب بھی بحث ختم نہیں ہوتی کیونکہ تشفّیِ دلائل کے لیے ضروری ہے کہ باتوں کے سارے انبار انڈیل دئیے جائیں - اتفاقاََ کسی بات پر اگر طرفین کا موقف ایک ہی ہو تو ذیلی معلومات کے اعتبار سے کوئی ایسا نقطہ ڈھونڈا جاتا ہے جس سے بحث کا آغاز ہو سکے جیسے - اگر یہ بات ہو رہی ہوکہ چنگیزخان نے واقعی ظلم کیا اور سب اس پر متفق ہو جائیں تو اس بات پر بحث ہو جائے گی کہ قبلای خان کو گھٹی کس نے پلائی ؟ جب اس طرح کی علمی بحث ذاتیات پر اختتام پذیر ہو جائے اور احباب چائے کی پیالیاں ہاتھوں میں گھومانا شروع کر دیں یا سگرٹ کا کش لیتے ہوئے نگاہ انگارے پر مرکوز کر دیں تو سمجھ لیں کہ محفل "نشستم گفتم برخاستم" کے آخری مرحلے پر ہے -ایسے میں وہ صاحب جنھیں شکست و ریخت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلا گیا تھا اور جنکی برآمدگی کی کوئی صورت اگلی محفل کے انقعاد تک نظر نہیں آرہی کہتے ہیں " پروفیسر !! ذرا چائے کا تو کہہ دو"
مولانا کا سراپا اتنا پُرنور ہے کے دیکھتے ہی عزت کرنے کو جی چاہتا ہے - مستورات کے معاملے میں بھی یہی نورانی دیوار حائل ہے - میرا ذاتی مشاہدہ ہے کے خواتین صرف دینی مسائل کیلئے مولانا سے مخاطب ہوتی ہیں ورنہ ایک تعظیمی خاموشی اختیار کیے رکھتی ہیں جو خواتین کے بھروسے اور مولانا کے ایمان کی واحد ضامن ہوتی ہے - انپی فطری تمناؤں کے حصول کیلئے اگر مولانا ، بزرگوں کی دعاوں کے حصار سے نکل بھی جائیں تب بھی سراپے کا یہ روحانی ہالہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتا -
اقتباس: چورنگی از حسن علی امام