مولانا کفایت علی کافی مراد آبادی ؒ - راجا رشید محمود

الف نظامی

لائبریرین
مولانا کفایت علی کافی مراد آبادی کی نعت گوئی
مولانا کفایت علی کافی مراد آبادی ؒ کا ذکر جنگ آزادی 1857 کے شہیدوں میں تو ہوتا رہا۔ لیکن ایک نعت گو شاعر کی حیثیت سے ان کا ذکر کم سے کم ہوا۔
پروفیسر سید یونس شا ہ کی "تذکرہ نعت گویانِ اردو" اور ڈاکٹر ریاض مجید کے پی ایچ ڈی کے مقالے "اردو میں نعت گوئی" کے سوا ، نعت پر لکھی جانے والی کتابوں اور مقالات و مضامین میں اُن کا ذکر نہیں ملتا۔ آج تک جتنے انتخابِ نعت شائع ہوئے ان میں سے صرف نقوش کے رسولﷺ نمبر میں اور میرے (راجا رشید محمود) ضخیم انتخاب "نعت کائنات" میں ان کی ایک نعت ہے۔ شفیق بریلوی کے مرتبہ "ارمغانِ نعت" میں ان کی ایک نعت نما غزل یا غزل نما نعت ہے۔
1857 کی جنگِ آزادی کے حوالے سے جہاں جہاں کافی کا ذکر آیا ہے ، وہاں بھی اگر کسی نے ان کی شاعری کی بات کی ہے تو "کوئی گُل باقی رہے گا ، نَے چمن رہ جائے گا" کے یہی چھ یا اس سے کم اشعار درج کیے ہیں۔ اس طرح ۔ اس ایک غزل کے علاوہ ان کی کوئی نعت لوگوں کے سامنے نہیں ہے۔
جب کہ کفایت علی کافی علیہ الرحمہ کا دیوانِ کافی نعتیہ ہے ، ان کی مثنویاں "خیابانِ فردوس" اور "نسیمِ جنت" نعتیہ ہیں۔ شمائل ترمذی کا منظوم اردو ترجمہ "بہارِ خلد" نعتیہ ہے۔ "مولودِ بہاریہ" ، حلیہ شریف ، مثنوی تجملِ دربارِ نبی کریم ﷺ بھی نعتیہ ہیں

جنگِ آزادی 1857 (واقعات و شخصیات) میں محمد ایوب قادری نے مولانا کافی کی شاعری کے بارے میں لکھا۔ مولانا کافی کی نعتیہ شاعری کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ شیخ مہدی علی خاں ذکی مراد آبادی سے تلمذ حاصل تھا۔ صنف نظم میں نعت گوئی بڑا سخت میدان ہے جہاں افراط و تفریط کی ذرہ برابر گنجائش نہیں۔ مولانا کافی اس امتحان میں نہایت کامیاب اترے۔ مولانا کی زبان نہایت صاف ، شستہ اور اندازِ بیان نہایت موثر ہے۔ مولانا کافی کا دیوان طبع ہو چکا ہے۔ ان کے صرف دو شاگردوں کے نام معلوم ہو سکے۔ عباس مراد آبادی اور اکبر مراد آبادی۔

مولانا کافی کی وہ آخری غزل جو انہوں نے پھانسی کے لیے جاتے ہوئے پڑھی ، ظاہر ہے کہ ان کی کسی کتاب میں شامل نہیں ہے۔ شفیق بریلوی نے ارمغان نعت میں ان کی یہی غزل شامل کی۔ اس غزل کے تین اشعار میں سرکار ﷺ کا ذکر مبارک ہے۔

کوئی گُل باقی رہے گا ، نَے چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ ﷺ کا دینِ حسن رہ جائے گا

ہم صفیرو باغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا

اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں ہو تم
اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا

نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا

جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا

سب فنا ہو جائیں گے کافی ، ولیکن حشر تک
نعتِ حضرت کا زبانوں پرسخن رہ جائے گا

کفایت علی کافی مراد آبادی شہید ؒ کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں عبد الغفور نساخ نے تذکرہ سخنِ شعرا میں لکھا
کافی تخلص ، مولوی کفایت علی مراد آبادی ، صاحبِ علم و فضل و زہد و ورع ہیں۔ بیشتر اشعار ان کے حمد و نعت میں ہوتے ہیں۔

پروفیسر محمد ایوب قادری اور پروفیسر سید یونس شاہ نے لکھا ہے کہ نساخ کے علاوہ حکیم غلام قطب الدین باطن اکبر آبادی نے گلشنِ بے خزاں اور عبد الحی صفا بدایونی نے تذکرہ شمیمِ سخن میں کافی کا ذکر بڑے گراں قدر الفاظ میں کیا ہے۔

خورشید مصطفی رضوی نے لکھا:
نظم و نثر میں آپ کی بے شمار تصانیف ہیں جن میں نسیمِ جنت ، خیابانِ فردوس اور داستانِ صادق وغیرہ مشہور ہیں۔

دیوانِ کافی:
دیوانِ کافی کے جس نسخے سے راقم السطور (راجا رشید محمود) نے استفادہ کیا ہے اس کے سر ورق پر عبارت تحریر ہے:

بہ عونِ خالقِ کون و مکان و بتوفیق مالکِ زمین و زمان بغرضِ افادہ مولود خوانانِ اطراف و اکناف بہ سعی وافی
دیوانِ کافی
محرم1314ھ
بہ صحتِ تمام بہ حسنِ اہتمام سید حسین تاجر کتب ، گلزارِ حوض ، حیدر آباد دکن مطبع ابوالعلائی گلزارِ حوض حیدر آباد دکن میں طبع ہوا۔

دیوان کے آخر میں یہ تحریر ہے:
الحمد للہ کہ دیوانِ کافی بتاریخ 14 محرم 1314 ہجری روز جمعہ بعد از نمازِ جمعہ ختم ہوا۔ اس کی رجسٹری دفتر نظامِ سرکار میں بنام سید حسین تاجر کتب گلزار حوض ، حیدر آباد دکن ہو چکی ہے۔

دیوانِ کافی مطبوعہ 1314ھ میں نعتیں بھی ہیں ، حمد و مناجات بھی ہے،مناقب بھی ہیں اور یہ سب منظومات ردیفوں کی الفبائی ترتیب سے ہیں۔

امامِ نعت گویاں مولانا احمد رضا خاں بریلوی ، مولانا کفایت علی کافی کی غزلیں بہت پسند کرتے تھے ، ان کو سلطانِ نعت کہتے تھے

مہکا ہے میرے بوئے دہن سے عالم
یاں نغمہِ شیریں نہیں تلخی سے بہم
کافی سلطانِ نعت گویاں ہے رضا
ان شاء اللہ میں وزیر ِ اعظم

پرواز میں جب مدحتِ شہ ﷺ میں آوں
تا عرش پروازِ فکرِ رسا میں جاوں
مضمون کی بندش تو میسر ہے رضا
کافی کا دردِ دل کہاں سے لاوں
---
مولانا کفایت علی کافی اور جنگ آزادی 1854
عشرت رحمانی کہتے ہیں کہ :
مولانا کافی 1857 کے اوائل میں آگرہ میں جہادِ حریت کے اکابر رہنماوں حضرت احمد اللہ شاہ اور دیگر حضرات کی مجالس میں برابر شریک ہوتے رہے۔ جنگِ آزادی کے آغاز کے ساتھ ہی مجلس مجاہدین کے مشورے کے مطابق روہیل کھنڈ آئے۔ پہلے بریلی رہے ، اس کے بعد رام پور سے ہوتے ہوئے مراد آباد پہنچے۔ ہر جگہ جہادِ حریت کی سرگرمیوں میں بڑے جوش و خروش سے عملی حصہ لیا۔ مراد آباد میں نواب مجد الدین عرف نواب مجو خان ، مولانا وہاج الدین صاحب اور دوسرے رہنماوں کے ساتھ شریکِ کار ہو کر انقلابی سرگرمیوں اور معرکہ آرائیوں میں مصروف رہے۔ جب غازیانِ وطن کے لشکر نے پہلی یلغار کی تو مولانا کافی بھی ان کے ساتھ تھے۔ آزاد قومی حکومت کے قیام کے بعد مولانا کفایت علی کو صدر الشریعہ بنایا گیا۔ مولانا روز مجاہدین کو احکامِ شرع کی تلقین کرتے اور ہر جمعہ کی نماز کے بعد مولانا وہاج الدین صاحب کے ساتھ مل کر مساجد میں جہاد کی تقویت کے لیے وعظ کرتے۔
آزاد حکومت کے قیام کے دوران مولانا کافی آنولہ اور دوسرے علاقوں میں فتوی جہاد کی تبلیغ اور انقلابی تنظیم کے لیے دورے کرتے رہے اور جگہ جگہ انہوں نے عوام میں اپنی پر اثر تقریر و منظوم رجز خوانی سے روحِ عمل پھونکی۔

پروفیسر محمد ایوب قادری لکھتے ہیں کہ
مولانا کافی نے نشر و اشاعت کا خوب کام کیا۔ فتوی جہاد کی نقول آپ نے دوسرے مقامات پر بھجوائیں بلکہ بعض مقامات پر خود گئے۔ قبضہ آنولہ ضلع بریلی میں خاص اسی مقصد کے لیے گئے۔

آنولہ سے بریلی آئے اور نواب خان بہادر اور امام المجاہدین مولانا سرفراز علی کے ساتھ انقلابی مجالس میں شریک ہو کر مشورے کرنے کے بعد جنرل بخت خاں کی قیادت میں لشکرِ آزاد کے ساتھ مراد آباد واپس آگئے اور یہاں صفِ اول کے مجاہدین میں پیش پیش نطر آتے رہے۔ مراد آباد میں دوسرے انقلابیوں کے علاوہ ، خاص طور پر شیخ افضل صدیقی ، شیخ بشارت علی خان اور مولانا سبحان علی ان کے ساتھ رہنماوں میں شامل تھے۔
جنرل بخت خاں کی فوج مراد آباد سے گزر گئی تو نواب رام پور نے پھر مراد آباد پر قبضہ کر لیا۔ پھر شہزادہ فیروز شاہ کا گزر مراد آباد سے ہوا تو ریاست رام پور کی فوج کو سخت زک اٹھانی پڑی۔ لیکن جنرل جونس کی آمد کی خبر معلوم ہوتے ہی شہزاد فیروز شاہ نے میدان چھوڑ دیا۔ 25 اپریل 1857 کو ریاست رام پور کے اہلکاروں نے مراد آباد کا انتظام جنرل جونس کے سپرد کردیا۔ مولانا کافی چار پانچ روز روپوش رہے لیکن جذبہ حریت و عشق نے انہیں نچلا نہ بیٹھنے دیا اور جوش و خروش میں پھر باہر نکل آئے۔ آخر 30 اپریل مطابق 16 رمضان المبارک 1274 ھ کو گرفتار کر لیے گئے۔
انگریزوں نے مولانا کفایت علی کافی کو گرفتار کیا تو سزائیں شروع ہوئیں۔ جسم پر گرم گرم استری پھیری گئی۔ زخموں پر نمک مرچ چھڑکی گئی اور آخر کار اس عاشقِ رسولﷺ کو بر سرِ عام چوک مراد آباد میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
جب آپ کو پھانسی کا حکم ہوا تومولانا کافی نے یہ حکم سنتے ہی خوشی کا اظہار کیا جب آپ کو پھانسی دینے کے لیے لے جایا گیا تو مولانا کافی نہایت بلند آواز سے اپنی تازہ غزل پڑھتے ہوئے جا رہے تھے۔ (کوئی گل باقی رہے گا ، نے چمن رہ جائے گا)
مولانا کفایت علی کافی کو جیل مراد آباد کے پاس مجمع عام میں پھانسی دی گئی اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔
مولانا محمد عمر نعیمی مراد آبادی کہتے ہیں کہ شہادت کے قریبا 35 برس بعد مولانا کافی کی قبر کھل گئی تھی۔ دیکھا تو جسم ویسا کا ویسا تھا۔ مولانا محمد عمر نعیمی کے نانا شیخ کرامت علی ٹھیکیدار نے جسم کو دوسری جگہ عقب جیل میں منتقل کر کے دفن کر دیا۔


تحریر: راجا رشید محمود
ماخذ:
ماہنامہ نعت لاہور ( کافی ؒ کی نعت) اکتوبر 1995
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا

جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا​
 

الف نظامی

لائبریرین
نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا

جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا
 
Top