مولوی“ سلمان گیلانی سے ماسٹراللہ دتہ تک!....روزن دیوار سے …عطاء الحق قاسمی

سویدا

محفلین
یہ منظر میں نے سرگودھا میں پنجاب کالج کے کل پاکستان مزاحیہ مشاعرے میں دیکھا۔ ایک نوجوان ”مولوی“ سٹیج پر آیا۔ پنڈال میں تین ہزار طلبہ کا اجتماع تھا۔ آنکھوں میں ڈورے والا سرمہ اور ٹخنوں سے اونچی شلوارپہنے اس ”مولوی“ نے پہلاشعر ترنم سے پڑھا تو مجمع قہقہوں سے گونج اٹھا۔ پھر دوسرا، پھر تیسرا! اورہر بار مجمع اسی طرح قہقہے لگاتا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ یہ ”مولوی“ درمیان میں کسی گانے کا ”ٹوٹا“ بھی چلا دیتا تھا اور شعروں کے درمیان یہ ”ٹوٹا“ اتنا فٹ بیٹھتا تھا کہ قہقہوں کی برسات کے ساتھ بے ساختہ داد و تحسین کا شور بھی اٹھتا تھا۔ اس ”مولوی“ کا نام سید سلمان گیلانی تھا اور یہ اپنے وقت کے ایک نہایت خوبصورت انقلابی شعر کہنے والے سید امین گیلانی کا بیٹا تھا اسے ایک منفرد قسم کا ترنم ورثے میں ملا تھا لیکن حس مزاح اس کی اپنی تھی۔ میں نے سلمان گیلانی کو باربار”مولوی“ اس لئے لکھا کہ ان کی وضع قطع خالص ”مولویانہ“ سی ٹخنوں سے اونچی شلوار کے علاوہ چہرے پر داڑھی اور سر پر بندھا چوخانے کا رمال ان کے دینی رجحان کو ظاہر کرتا تھا، میں ان کی اس وضع قطع کو ”مومنانہ“ بھی قراردے سکتا تھا مگر ”مولویانہ“ اس لئے قرار دیاکہ لوگوں کے ذہنوں میں ”مولوی“ کے ساتھ کرختگی کاتصور آتا ہے، چنانچہ اس کرختگی کو ”سوفٹ امیج“ میں بدلنے کے لئے مجھے سید سلمان گیلانی کو ”مولوی“ قرار دینا پڑا ہے۔ مشاعرے کا دوسرا دور طالبات کے لئے تھاچنانچہ میں نے تجویز پیش کی کہ سلمان گیلانی اگرچہ سرفراز شاہد، انعام الحق جاوید، خالد مسعود اور عذیر احمد سے جونیئر ہیں لیکن انہیں سب سے آخر میں پڑھایا جائے کیونکہ ان کے عوامی انداز اور ترنم کے سامنے ان شعراء کا ”سادہ“ انداز نہیں ٹھہرسکتا تھا چنانچہ اس تجویز پر عمل ہوااور یوں مشاعرہ آہستہ آہستہ اپنے کلائمکس کی طرف گیا۔ مشاعرے کے پس پردہ ”ہدایتکار“ پروفیسر ارشدجبار پراچہ تھے جو وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود ایک طویل عرصے سے ضلع سرگودھا کو ادبی طور پر پوری طرح فعال بنائے ہوئے ہیں۔ پنجاب کالج کے پرنسپل پروفیسر محمدعارف چودھری نے یہ محفل اس خیال سے آراستہ کی تھی کہ طلبا و طالبات کو ایک تعمیری تفریح میسر آسکے جس سے ہماری نوجوان نسل بہت حد تک محروم ہے اوریوں اس میں منفی رجحانات پرورش پا رہے ہیں۔ تقریب میں دیگر معززین کے علاوہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سرگودھا کے چیئرمین پروفیسر عبدالعزیز بلوچ، کنٹرولر سہیل اظہر خان اور سیکرٹری پروفیسر انورفاروق نے بھی شرکت کی۔ باقی رہی اس مشاعرے میں میری شرکت تو سچی بات یہ ہے کہ یہاں میرا کوئی کام نہ تھا کیونکہ میں مزاحیہ شاعری نہیں کرتا چنانچہ مجھے صدرِ مشاعرہ بناد یا گیا۔ سو آپ یوں سمجھیں کہ میں اس مشاعرے کا چودھری فضل الٰہی (مرحوم) تھا۔
گزشتہ ہفتے ایک مشاعرہ چونڈہ میں بھی تھا۔آئی ایس پی آر کے کرنل عتیق اسلام آباد بیٹھ کر اس مشاعرے کی ”کمانڈ“ کررہے تھے۔ سیالکوٹ سے کیپٹن (ر) عطا محمد شاعروں کیساتھ رابطے میں تھے او رچونڈہ میں افتخار بھٹی اپنے مہمانوں کے لئے چشم براہ تھے لیکن لاہورسے چونڈہ جاتے ہوئے پہلے مریدکے میں ٹریفک جام ملااورتقریباً 45 منٹ انتظار کی یہ اذیت بھگتنا پڑی۔ اس کے بعدایمن آباد میں اس سے بدتر صورتحال پیش آئی۔ وہاں ایک خاتون اپنی یاکسی ڈرائیورکی غلطی سے جاں بحق ہوگئی تھیں اوراحتجاج کیلئے چالیس پچاس لوگوں نے سڑک بلا ک کر رکھی تھی اور گاڑیوں پر پتھراؤ کر رہے تھے۔ یہاں ٹریفک دو گھنٹے جام رہی جس کے نتیجے میں ہزاروں گاڑیوں کی قطار لگ گئی اوربیس بائیس ہزار لوگ چند افرادکے یرغمالی بن کررہ گئے۔ عذیر احمد اس سفرمیں بھی میرے ساتھ تھے۔میں نے اس روز انہیں پہلی دفعہ غصے میں دیکھا، ان کا خیال تھا کہ ہزاروں لوگوں کو یرغمالی بنانے والے چند افراد کو انہیں ”آہنی ہاتھوں“ سے نمٹنا چاہئے جس کی ”تڑی“ حکمران حضرات اکثردیتے رہتے ہیں۔ بہرحال ان تکلیف دہ لمحات کا نتیجہ یہ نکلا کہ چونڈے تک پہنچتے پہنچتے جسم تھکن سے چور ہوچکا تھا چنانچہ میں نے اور عذیر احمد نے جاتے ہی میزبانوں سے اس امر کی معذرت چاہی کہ ہم زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکیں گے چنانچہ ہم دونوں نے اولین شعراء میں اپنا کلام سنایا اور واپس لاہور کی طرف روانہ ہوگئے۔
میرے آبائی ”گاؤں“ وزیر آباد کے نواحی قصبہ سوہدرے میں خوبصورت نوجوان شاعر شیراز ساگر کے شعری مجموعے کی تقریب ِرونمائی میں بھی میری شرکت ”ضروری“ تھی کہ یہ لوگ میرے ”گرائیں“ تھے۔ اس کااہتمام سوہدرہ پریس کلب کے صدر نجیب اللہ ملک اور جاوید بٹ نے کیا تھا۔ اس چھوٹے سے قصبے میں لوگوں کی ادب سے والہانہ وابستگی کا منظر اچھا لگا اوراس سے بھی اچھا یہ کہ یہاں میری ملاقات اپنے پرائمری کے سکول کے استاد ماسٹر اللہ دتہ کے صاحبزادے سے بھی ہوئی!

http://www.jang.net/urdu/details.asp?nid=318521
 

خواجہ طلحہ

محفلین
اپنے شہر سرگودہا کی اس تقریب کی ویڈیو بھی ملاحظہ ہو۔
watch
 

طالوت

محفلین
مزاح ان کا اس پائے کا نہیں جیسا کہ دیگر شاعروں کا ہے مگر انداز بلاشبہ نرالا اور مزاح سے بھرپور ہے ۔ بلاشبہ دلچسپ آدمی ہیں ۔
وسلام
 
Top