ایک غیر صدارتی تقریر
عطاء الحق قاسمی
آج صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے ”مولوی“ نواز شریف کے حوالے سے جو بیان دیا ہے وہ پڑھ کر دل خوش ہو گیا ہے کیونکہ ان ”مولوی صاحب“ کو تھوڑا بہت میں بھی جانتا ہوں اور یوں مجھے خوشی ہوئی ہے کہ زرداری صاحب نے انہیں ٹھیک پہچانا ہے۔ میاں نواز شریف پاکستانی عوام کی بہت بڑی اکثریت کی طرح نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ موسیقی بھی سنتے ہیں۔ فلم بھی دیکھتے ہیں۔ انہیں مصوری اور فن تعمیر سے بھی گہری دلچسپی ہے۔ مسلک کے لحاظ سے وہ بریلوی عقیدے کے حامل ہیں اور یوں پیروں فقیروں کے ماننے والے ہیں لیکن دیو بندی، اہل حدیث اور شیعہ مسالک کے حامل افراد کو بھی خود سے الگ نہیں سمجھتے۔ وہ ان سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جس طرح وہ ان سے محبت کرتے ہیں۔ تاہم زرداری صاحب کے بیان کے حوالے سے مجھے ایک ہلکا سا مغالطہ یہی ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے میاں صاحب کو ”مولوی“ قرار دے کر کہیں ان پر پھبتی نہ کسی ہو کیونکہ مے نوشوں کے حلقے میں اس شخص کو ”مولوی“ کہا جاتا ہے جو مے نوش نہ ہو۔ ڈانس نہ کرتا ہو۔ حسینوں کے جھرمٹ میں نہ رہتا ہو۔ جس نے ایک پورا ”حرم“ آباد نہ کیا ہو۔ جو موسیقی کی لہروں پر نرم و نازک بازوؤں میں جھومتا نہ ہو۔ تو اگر یہ پھبتی اس حوالے سے ہے تو پھر زرداری صاحب نے صحیح کسی ہے، کیونکہ میاں صاحب ایسے معاملات میں واقعی ”زاہد خشک“ واقع ہوئے ہیں۔ باقی رہی یہ بات کے زرداری صاحب نے ”مولوی“ کے لفظ کو اتنے تحقیر آمیز لہجے میں کیوں استعمال کیا ہے، تو یہ معاملہ مولوی صاحبان اور زرداری صاحب کے مابین ہے۔ امید ہے مولانا فضل الرحمن زرداری صاحب کا یہ مسئلہ بھی حل کر دیں گے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری صاحب نے اپنے بیان میں یہ بھی فرمایا ہے کہ ان کے 35 ہزار بچے مر گئے ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت پانے والے 35 ہزار پاکستانیوں کو اپنے بچے قرار دیا ہے لیکن ان کے یہ بچے زیادہ تر انہی کے دور حکومت میں مارے گئے ہیں اور وہ ابھی تک ان ہلاکتوں کا راستہ روکنے کی بجائے اندھا دھند امریکی پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں مشغول ہیں۔ میاں نواز شریف صحیح کہتے ہیں کہ یہ جنگ ہماری نہیں، امریکہ کی جنگ تھی لیکن اسے ہماری جنگ بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ جناب زرداری اپنے بچوں کی شہادتوں کا راستہ روکنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 20 اکتوبر 2008ء کو پارلیمنٹ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ایک متفقہ قرارداد منظور کی۔ صرف قرارداد منظور نہیں کی بلکہ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس کے سربراہ رضا ربانی تھے۔ اس کمیٹی کے اجلاس چھ مہینے تک جاری رہے اور پھر بالآخر کمیٹی کے تمام ارکان نے متفقہ طور پر دہشت گردی کو روکنے کے لئے 63 اقدامات تجویز کئے لیکن تین سال گزرنے کے بعد بھی یہ سفارشات نہ کابینہ کے اجلاس میں پیش ہوئیں اور نہ قوم کو اس حوالے سے کچھ بتایا گیا۔ جناب زرداری اگر شہید ہونے والوں کو واقعی اپنے بچے سمجھتے تو کیا ان کی سرد مہری کا یہی عالم ہوتا؟
مجھے لگتا ہے صدر مملکت نے متذکرہ تقریر فی البدیہہ ارشاد فرمائی ہے اور کسی اسپیچ رائٹر یا اپنے کسی سیاسی مشیر سے بھی مشورہ نہیں کیا، ورنہ انہیں بتایا جاتا کہ میاں صاحب کو ”مولوی“ قرار دینے سے امریکہ تو ان سے دور ہو جائے گا جو پہلے سے ہی ہے لیکن پاکستانی عوام انہیں مزید اپنے قریب محسوس کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں انہیں ”مولوی“ کیوں کہا جا رہا ہے۔ انہوں نے اگر کسی سے مشورہ کیا ہوتا تو وہ انہیں یہ بھی بتاتا کہ میاں صاحب پر جرنیلوں اور فوج کے سپاہیوں کو لڑانے کا الزام ”گھر جا کے شکیت لاواں گی“ کے زمرے میں آنے کے علاوہ اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ خود فوج بھی اس پر یقین نہیں کرے گی کہ وہ جانتی ہے یہ شخص کٹر پاکستانی ہے اور فوج کے ادارے سے اسے کوئی شکایت نہیں۔ اسے صرف ان جرنیلوں سے شکایت ہے جو ملک میں بار بار مارشل لاء لگاتے رہے جس کے نتیجے میں ملک آج اس حال کو پہنچا ہے کہ بے حال نظر آ رہا ہے۔ صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے میاں صاحب کو ”لوہار“ ہونے کا طعنہ بھی دیا ہے۔ یہ سوچ ایک ترقی پسند صدر کی ہے جس کی جماعت خود کو محنت کشوں کا نمائندہ قرار دیتی ہے۔ چنانچہ پاکستان بھر کے محنت کشوں کو ایک بار پھر اندازہ ہو جائے گا کہ یہ جماعت انہیں اتنا حقیر سمجھتی ہے کہ محنت کش کے لفظ کو گالی کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
جناب زرداری نے اپنی تقریر میں میڈیا پر بھی اپنا غصہ اتارا ہے۔ اپنی ناکامیوں کا جائزہ لینے کی بجائے میڈیا پر برسنا اور یہ کہنا کہ وہ وقت جلد آئے گا جب چینلز پر اداکار نہیں، دانشور بیٹھیں گے۔ ”انہیں خصوصی غصہ ”جیو“ پر ہے چنانچہ ایک خبر کے مطابق مبینہ طور پر ان اداکاروں کو خریدنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، لیکن ان دانشوروں میں سے کسی ایک نے بھی ابھی تک کمزوری نہیں دکھائی۔ یہ زرداری صاحب کو مشورہ ہے کہ وہ دوسروں کو اپنی شاگردی میں لینے کی خواہش ترک کریں اور خود اپنے لئے کوئی استاد تلاش کریں جو انہیں بتائے کہ ایک صدر مملکت کو کسی بھی حالت میں ایک سطح سے نیچے اتر کر بات نہیں کرنا چاہئے۔ صدارت ایک باوقار منصب ہے اور اس کے کچھ تقاضے ہیں۔ بدقسمتی سے صدر مملکت ان تقاضوں کیحرمت برقرار نہیں رکھ سکے۔
اور اب آخر میں ایک بات یہ کہ مجھے یہ کالم لکھ کر خوشی نہیں ہوئی میں بھی میاں نواز شریف کی طرح اس سوچ کا حامل رہا ہوں کہ یہ حکومت جیسی بری بھلی ہے اسے اپنی مدت ضرور پوری کرنا چاہئے چنانچہ میں دوستوں سے اس موضوع پر لمبی لمبی بحثیں کرتا رہا ہوں اور بارہا یہ بات اپنے کالموں میں بھی لکھی ہے۔ آپ ریکارڈ چیک کر لیں میں نے گزشتہ تمام عرصے میں پی پی پی کی حکومت کے خلاف ایک کالم بھی نہیں لکھا بلکہ زرداری صاحب کے حوالے سے جو توہین آمیز میسج ملک بھر سے آتے ہیں میں انہیں سخت ناپسند کرتا رہا ہوں اور اب بھی کرتا ہوں کہ بہرحال وہ صدر مملکت ہیں لیکن ان کی حالیہ تقریر کسی ملک کے صدر کی نہیں، بلکہ کسی ایسے شخص کی لگتی ہے جو اس منصب کے تقاضوں سے واقف نہیں ہے۔ یہ ایک غیر صدارتی تقریر تھی جو کسی چھچھورے شخص سے بھی کرائی جا سکتی تھی۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=538518