مولانا رومی اصل میں مولوی رومی کے نام سے مشہور ہیں، شاہ شمس تبریز سے بیعت ہونے سے پہلے آپ بڑے عالم فاضل تھے اور درس اور واعظ کرتے تھے یعنی مُلّا تھے۔ اپ سے بیعت کرنے کے بعد آپ نے درس اور واعظ ترک کر دیے اور صوفی ہو گئے اور پھر مولوی رومی کے نام سے شہرت حاصل کی۔ شاہ شمس تبریز سے بیعت کرنے کی کافی روایت ہیں جو کہ عموماً ضعیف ہیں، ایک مشہور روایت یہ ہے کہ مولانا کہیں واعظ فرما رہے تھے اور کتابوں کے ڈھیر پاس دھرے تھے، شاہ شمس کا ادھر سے گزر ہوا تو مولانا کی کتابوں کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ کیا ہے، مولانا نے فقیر کو دیکھا اور کہا کہ یہ وہ علم ہے جو تُو نہیں جانتا، شاہ شمس نے اشارہ کیا اور کتابیں جل کر خاک ہو گئیں، مولانا کو بہت افسوس ہوا اور کہا کہ میرا علم ضائع کر دیا۔ شاہ شمس نے کہا یہ کیسا علم ہے جو کتابوں کا محتاج ہے اور دوبارہ اشارہ کیا تو کتابیں اصل حالت میں واپس آ گئیں، مولانا نے شاہ شمس سے کہا یہ کیا ہے انہوں نے کہا یہ وہ علم ہے جو تو نہیں جانتا بس اُس دن سے مولانا شاہ شمس کے ساتھ ہو گئے اور وعظ اور درس ختم کر دیا۔ اور کہا جاتا ہے کہ مولانا کے درس بند ہونے کا مولانا کے بیٹوں اور دوستوں کا بہت قلق ہوا اور مولانا کو واپس اسی ڈگر پر لانے کیلیے انہوں نے شاہ شمس تبریز کو قتل کر دیا اسکے متعلق مولانا شبلی نعمانی اپنی شہرہ آفاق کتاب شعر عجم میں بھی لکھا ہے، یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ملتان میں جن شاہ شمس کا مزار ہے وہ دوسرے بزرگ ہیں۔
اس شعر میں مولانا یہی فرما رہے ہیں کہ روم کا عالم فاضل مُلّا، مولوی یعنی صوفی ہر گز نہ بنتا اگر وہ شاہ شمس تبریز کا غلام نہ بنتا۔