مولوی

طاھر جاوید

محفلین
مشکل ہےفرار ۔۔۔
خود سے بھی خدا سے بھی
خودفریببی کی رونق بھی بھلہ ساتھ کہاں تلک دے
اُسکو ہم فریب دینے پہ آیئں جب
جو سانس کی ڈوری پہ چوکنا بیٹھا ہوا ہےتو
احساس کو مطمین کرنے کے بہانے ختم ہونے لگتے ہیں
اور موت کی دھمکی ہر خیال پہ وارد ہوتی ہوئ نظر آتی ہے
دل سے ایمان کا جھگڑا ئے مُسلسل مجھے معلوم مگر
دل سے آنکھوں کی طرف مُنتقل ھوتے ھوَے
احساس کے ہر بیاں سے مُنہ موڑوں کیسے
بہت مُشکل ھے فرار۔۔۔اور
مُوت بھی تو کوئ بے حد اثر پذیر عمل نہیں
حکم کی طرح چاہے موت گر
نازل بھی ھو تو پھر بھی
موت کے بعد کہاں سب کچھ
بے تعلق و بے مثال ختم ہو جاتا ھے
پانی۔۔۔ بس بہتی ندی کی شکل دھار کر
زندگی سے ہار کر۔۔
بے کراں سمندرمیں مدغم ہو جاتا ھے

بہت مُشکل فرار ھے
مگر ہاں میں بدلتا اک انکار ھے

خُدا قادر ہے، کہ خود اپنی ہی تخلیق کو فنا کر دیتا ھے
ہم سے تو کوِِی شعر لکھ کر بھی نہیں پھاڑا جاتا مگر
خدا لم یزل، حاوی ، قادر، بےکراں اور کُل

مُشکل ہے فرار
خُدا سے بھی اور خود سے بھی
خُدا سے خوف کہ اک مُحتاط مسیحا کی طرح رھتے ھوئے بھی
کون جانے کہ کس عمل میں اُسکی توہین کا پہلو میسر آ جاے
اور ذات کی جفت کے سب زاویوں کی پنہای میں
کفر کا بد صورت ، بد ھیت رنگ چھا جاے

خود سے خوف کہ
دل سے ایماں کے جھگڑے میں
وقت کی بے عدل عدالت
میرے اعمال و خیالات کی نفی کرتی
ھونی انہونی کے جھمیلوں میں پھنسی مری ذات کو
موت کی دھمکی میں اسطرح پھنسا جائے
کہ میرے ھونے کی نفی
مرے نہ چاھتے ھوَے بھی یارو
مرے مدِمقابل آ جاے

مشکل ھے فرار
 
Top