" مولوی "

ن م راشد کی نظم نئی فکر نئے انداز میں ....

" مولوی "

روشنی سے ڈرتے ہو؟

روشنی تو تم بھی ہو‘ روشنی تو ہم بھی ہیں

مولوی سے ڈرتے ہو؟

مولوی تو تم بھی ہو، مولوی تو ہم بھی ہیں

مولوی زباں بھی ہے، مولوی بیاں بھی ہے

اس سے تم نہیں ڈرتے !

علم اور حکمت کے رشتہِ ہائے پیہم سے

مولوی ہے وابستہ

مولوی کے دامن سے روشنی ہے وابستہ

اس سے تم نہیں ڈرتے !

آگہی سے ڈرتے ہو .....

ہاں ابھی ہے تنہائی ، درد کی فصیلیں ہیں

درد کی فصیلوں میں

زندگی سسکتی ہے

دور بے خدائی کا ، دور بے حجابی کا

پھر بھی یہ سمجھتے ہو، تم پے اسکی رحمت ہو

تم خدا کے باغی ہو ، تم نبی کے دشمن ہو

تم مگر یہ کیا جانو

آج بادشاہی ہے ، آج ظلم غالب ہے

ظلم حد سے بڑھتا ہے ، لوگ جاگ اٹھتے ہیں

نور کا نشاں بن کر

لوگ جاگ اٹھتے ہیں ، صبح کی اذاں بن کر

مولوی سے ڈرتے ہو؟

مولوی تو تم بھی ہو، مولوی تو ہم بھی ہیں

مولوی سے ڈرتے ہو

شہر کی فصیلوں پر

دیو کا جو سایا ہے پاک ہو نہیں سکتا

رات کا لبادہ بھی

چاک ہو نہیں سکتا ، خاک ہو نہیں سکتا

رات کا لبادہ بھی

غیب سے مگر شاید

ہاں کوئی نوا آئی

ذات کی صدا آئی

خون حق کبھی پیارے

رائیگاں نہیں جاتا

بے اماں نہیں جاتا

اک نیا جنوں ہوگا

حق کی آبرو ہوگا

مولوی غلامی سے

شاہ کی سلامی سے

بن کے شیر نکلے گا

وقت وہ بھی آئے گا ...

تم ابھی سے ڈرتے ہو؟

مولوی سے ڈرتے ہو ....

حسیب احمد حسیب
 
آخری تدوین:
Top