مولوی ...........

مولوی ...........

کہاں سے آتا ہے یہ مولوی ... ؟

کیا یہ آسمان سے اترتا ہے .... !

یا زمین سے اگتا ہے

ہمارے سامنے کا دیکھا بھالا پروان چڑھا بچہ اچانک مولوی بن جاتا ہے اسے تقدس کی چادر میں لپیٹ کر ایک اونچے منبر پر بٹھا دیا جاتا ہے

یا پھر . . .

ذلت برے نام لعنت ملامت مولوی کا مقدر ہوتی ہے

کسی کے نزدیک مولوی شیطان تو کسی کے نزدیک فرشتوں سے بھی اونچا انسان

یہ مولوی کیا ہے ... ؟

کوئی لقب، نام ، پھبتی ، گالی ، دشنام ، اعزاز ، علامت ، سند یا اور کچھ

مولوی فتویٰ دیتا ہے ... مولوی حلوہ کھاتا ہے

مولوی دین بتاتا ہے ... مولوی چندہ لیتا ہے
مولوی یہ کرتا ہے ... مولوی وہ کرتا ہے ..

دشمنوں کی دشمنی اور اپنوں کی سنگدلی کا شکار

مولوی اس ذلیل معاشرے کی ایک ایسی پراڈکٹ ہے جو اپنی ذلت کا طوق مولوی کے گلے میں ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتا ہے .......

مدرسوں میں ٹاٹ پر بیٹھ کر دین پڑھنے پڑھانے والا مولوی

چندے کے چند ٹکڑوں پر بمشکل گزر اوقات کرنے والا مولوی

دو کمروں کے گھر میں اپنے خاندان کے ساتھ کم تنخواہ میں زندگی گزارنے والا مولوی


یا مسند و منبر پر بیٹھنے والا مولوی

بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے والا مولوی

مرغ مسلم کھانے والا مولوی


فرشتہ یا عفریت

اسے ہم ہی نے تخلیق کیا ہے

ہم برے تو ہمارا مولوی برا

ہم اچھے تو ہمارا مولوی اچھا

ہم جھوٹے تو ہمارے مولوی جھوٹا

ہم سچے تو ہمارا مولوی سچا

مولوی کون

غریب کا وہ بچہ جو اچھی تعلیم حاصل نہ کر سکے

یا امیر کا وہ بچہ جو تعلیم حاصل کرنے کے لائق نہ ہو

مساجد و مدارس میں قال الله و قال الرسول کرنے والی یہ مخلوق

اپنوں کی بے توجہی

اور غیروں کی نشتر زنی کا شکار

یہ مرا مٹا ٹوٹا پھوٹا دین ان بوریہ نشینوں کے دم سے ہی زندہ ہے

ہاں ایسا وقت اآنے والا ہے

ہاں ہاں ایسا وقت آ چکا ہے

جب یہ زمین ان مولویوں کے خون سے سرخ ہے

اور اپنے اور غیر

کوئی انکا پوچھنے ولا نہیں

کوئی انکی آڑ بننے کو تیار نہیں

کوئی انکا بازو نہیں کوئی سہارا نہیں

مولوی کو تقدس کے منبر پر مت بٹھاؤ

مولوی کے گلے میں ذلت کا طوق مت پہناؤ

مولوی تمہارا اپنا ہے غیر نہیں

اسے تمہاری ضرورت ہے

اور

تمہیں اسکی

اے متذبذب قوم

مولوی کو اپنا لو یا چھوڑ دو
دین کو اپنا لو یا چھوڑ دو


حسیب احمد حسیب
 

نور وجدان

لائبریرین
مولوی لفظ برا نہیں ہے ۔ ہمارے معاشرے کی امامت ان کے ذمے ہوتی ہے ۔ ان کا تذکیہ نفس دوسروں کو راغب نیکی کی جانب کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔ یہی مولوی پہلے بہت عزت پاتے تھے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے میں جو کچھ نہیں بن پاتا وہ مولوی بن جاتا ہے ۔۔۔۔ انسان کا عالم ہونا اچھا ہے اگر وہ درست معنوں میں مولوی ہے اور اس کا عمل اسے سرخرو کردیتا ہے ۔ اچھی تحریر ہے ۔۔۔۔۔
 
مولوی لفظ برا نہیں ہے ۔ ہمارے معاشرے کی امامت ان کے ذمے ہوتی ہے ۔ ان کا تذکیہ نفس دوسروں کو راغب نیکی کی جانب کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔ یہی مولوی پہلے بہت عزت پاتے تھے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے میں جو کچھ نہیں بن پاتا وہ مولوی بن جاتا ہے ۔۔۔۔ انسان کا عالم ہونا اچھا ہے اگر وہ درست معنوں میں مولوی ہے اور اس کا عمل اسے سرخرو کردیتا ہے ۔ اچھی تحریر ہے ۔۔۔۔۔

درست تجزیہ کیا آپ نے
 

کاشف اختر

لائبریرین
صفت ِمولویت جو مولیٰ سے منسوب ہے یقینا ایک اچھی چیز بلکہ ایک مرتبۂ خداداد ہے جو خالق کا علم و عرفان رکھنے والے کیلئے استعمال کی گئی ہے ۔جیسے کسی نے کہا ہے

علم مولی ہو جسے ہے مولوی ..۔۔۔۔۔۔
اس بارے کوئی دو رائے نہیں کہ مولوی، مولائے کائنات کا علم و عرفان رکھنے کے باعث خدا کا مقبول بندہ ہوتا ہے، اس لئے دیگر خلق سے ممتاز بھی ہوتا ہے جیسا کہ بہت سی احادیث اور آیات میں اہلِ علم کی فضیلت بیان کی گئی هے ، مگر اس دور میں مولویوں نے دوسروں سے خود کو ممتاز و فائق دکھانے کیلئے طرح طرح کے حربے اپنائے ہیں ، اور گویا علمِ دین کا بالعموم مقصد نمائش و نمود بن گیا ہے! جبکہ دوسری طرف خود یہی چیز علما میں جہلا سے ممارات اور علما پر مباہات کے جذبات پیدا کرتی ہے جو حدیث پاک کی رو سے اس علم ِ دین کے بالکلیہ منافی ہے، اور ایسے عالم کیلئے وعید شدید وارد ہوئی ہے! اسی باعث یہ طبقہ عصرِحاضر میں پہلے کی بہ نسبت اور زیادہ ہدفِ تنقید و ملامت بنتا ہوا نظر آتا ہے! میں اپنے ناقص خیال میں موجودہ صورتِ حال سے ہم آہنگ صفتِ علم کو "مولویت " کے بجائے "مولانیت " سے تعبیر کرنا غلط نہیں سمجھتا! کیوںکہ اول الذکر صفت تو خشیت و معرفت کی متقاضی ہوتی، اور اس حقیقی صفت سے متصف انسان اپنی اعلی صفات کے باعث فرشتوں سے بھی افضل بن جاتا ہے ، جبکہ ثانیِ الذکر میں ریا، سمعہ، فخر، غرور، خودغرضی، خود بینی، خود پسندی، خودسری، خود رائی کے عناصر نمایاں ہوتے ہیں، اور بسا اوقات یہ صفات اعلی مراتب تو کجا؟ انسانیت سے بھی کوسوں دور لے جاتے ہیں!
یہ تو دیندار طبقوں کی بات تھی جن کی نظر میں مولویت اگر مخدوش ہوتی ہے تو اس کے مذکورہ عوامل ہوتے ہیں، البتہ جہان تک بات غیر اسلامی نظریے کے حامل آزاد خیال طبقے کی ہے، تو ان کی نظر میں مولوی کا برا ہونا کوئی نئی بات نہیں، اور شاید اس طبقے کے اختلاف سے کوئی فرق رونما بھی نہیں ہوتا!
 
صفت ِمولویت جو مولیٰ سے منسوب ہے یقینا ایک اچھی چیز بلکہ ایک مرتبۂ خداداد ہے جو خالق کا علم و عرفان رکھنے والے کیلئے استعمال کی گئی ہے ۔جیسے کسی نے کہا ہے

علم مولی ہو جسے ہے مولوی ..۔۔۔۔۔۔
اس بارے کوئی دو رائے نہیں کہ مولوی، مولائے کائنات کا علم و عرفان رکھنے کے باعث خدا کا مقبول بندہ ہوتا ہے، اس لئے دیگر خلق سے ممتاز بھی ہوتا ہے جیسا کہ بہت سی احادیث اور آیات میں اہلِ علم کی فضیلت بیان کی گئی هے ، مگر اس دور میں مولویوں نے دوسروں سے خود کو ممتاز و فائق دکھانے کیلئے طرح طرح کے حربے اپنائے ہیں ، اور گویا علمِ دین کا بالعموم مقصد نمائش و نمود بن گیا ہے! جبکہ دوسری طرف خود یہی چیز علما میں جہلا سے ممارات اور علما پر مباہات کے جذبات پیدا کرتی ہے جو حدیث پاک کی رو سے اس علم ِ دین کے بالکلیہ منافی ہے، اور ایسے عالم کیلئے وعید شدید وارد ہوئی ہے! اسی باعث یہ طبقہ عصرِحاضر میں پہلے کی بہ نسبت اور زیادہ ہدفِ تنقید و ملامت بنتا ہوا نظر آتا ہے! میں اپنے ناقص خیال میں موجودہ صورتِ حال سے ہم آہنگ صفتِ علم کو "مولویت " کے بجائے "مولانیت " سے تعبیر کرنا غلط نہیں سمجھتا! کیوںکہ اول الذکر صفت تو خشیت و معرفت کی متقاضی ہوتی، اور اس حقیقی صفت سے متصف انسان اپنی اعلی صفات کے باعث فرشتوں سے بھی افضل بن جاتا ہے ، جبکہ ثانیِ الذکر میں ریا، سمعہ، فخر، غرور، خودغرضی، خود بینی، خود پسندی، خودسری، خود رائی کے عناصر نمایاں ہوتے ہیں، اور بسا اوقات یہ صفات اعلی مراتب تو کجا؟ انسانیت سے بھی کوسوں دور لے جاتے ہیں!
یہ تو دیندار طبقوں کی بات تھی جن کی نظر میں مولویت اگر مخدوش ہوتی ہے تو اس کے مذکورہ عوامل ہوتے ہیں، البتہ جہان تک بات غیر اسلامی نظریے کے حامل آزاد خیال طبقے کی ہے، تو ان کی نظر میں مولوی کا برا ہونا کوئی نئی بات نہیں، اور شاید اس طبقے کے اختلاف سے کوئی فرق رونما بھی نہیں ہوتا!
بہت خوب
 

کاشف اختر

لائبریرین

حسیب بھائی ! یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے ، ورنہ چند ٹوٹے پھوٹے جملے ، آپ کے مضمون کے آگے ایسے ہیں جیسے سورج کی روشنی کے آگے چراغ کی مدہم سی لو ، آپ نے بہت کم ہی ایسا دیکھا ہوگا کہ فقیر کسی تحریر پر تبصرے کی جسارت کرپاتا ہے ، جی نہیں ! میں کیا اور میری بساط کیا ؟ انگلیاں کانپ جاتی ہیں کسی شخصیت کے کردار پر مثبت تبصرہ کرتے ہوئے ؟ چہ جائیکہ کسی پر منفی کی ہمت ہوسکے ، اس لئے میرے اس تبصرے سے کردار کشی اور ردِ شخصیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، پھر بھی اگر اندازِ بیان تلخ ہوگیا ہو تو معذرت خواہ ہوں !
 
حسیب بھائی ! یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے ، ورنہ چند ٹوٹے پھوٹے جملے ، آپ کے مضمون کے آگے ایسے ہیں جیسے سورج کی روشنی کے آگے چراغ کی مدہم سی لو ، آپ نے بہت کم ہی ایسا دیکھا ہوگا کہ فقیر کسی تحریر پر تبصرے کی جسارت کرپاتا ہے ، جی نہیں ! میں کیا اور میری بساط کیا ؟ انگلیاں کانپ جاتی ہیں کسی شخصیت کے کردار پر مثبت تبصرہ کرتے ہوئے ؟ چہ جائیکہ کسی پر منفی کی ہمت ہوسکے ، اس لئے میرے اس تبصرے سے کردار کشی اور ردِ شخصیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، پھر بھی اگر اندازِ بیان تلخ ہوگیا ہو تو معذرت خواہ ہوں !
آپ جیسے محبت کرنے والے مخلص احباب کی وجہ سے ہی لکھنے کا دل کرتا ہے آپ کا تبصرہ انتہائی خوبصوت اور آپ کی صالح فکر کا آئینہ دار ہے ...
 
Top