اوشو
لائبریرین
مومن کا ایک شعر ہے:
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
غالبؔ کو یہ شعر اتنا پسند آیا کہ وہ اس کے بدلے اپنا پورا دیوان دینے پر راضی ہوگئے۔ اس شعر کی ساری خوبصورتی لفظ ’’گویا‘‘ میں پوشیدہ ہے۔ بڑا ذومعنی شعر ہے۔ گویا بہ معنی گفتگو بھی اور ’’یعنی‘‘ کے معنوں میں بھی۔ مومن غالب کے ہم عصر تھے۔ دبستان دلی سے تعلق تھا۔ طبابت اور علم نجوم میں مہارت رکھتے تھے۔ ستاروں کی چال جانتے تھے۔ شاعری کے علاوہ نجوم کا خیال آیا تو اس میں وہ کمال حاصل کیا کہ بڑے بڑے منجم حیران رہ گئے۔ جینئس آدمی کی طبیعت کسی ایک کام پر نہیں جمتی۔ مومن خان مومن کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا۔
لیکن ان کے مزاج کی ہنرمندی ایسی تھی کہ جس میدان میں بھی قدم رکھا اسے کمال کے درجے تک پہنچایا۔ سال میں ایک بار تقویم دیکھتے تھے اور پورے سال تک تمام ستاروں کی چال، مقام اور حرکات ان کے ذہن میں محفوظ رہتی تھیں۔ جب کوئی سوال ان کی خدمت میں پیش کرتا تو نہ زائچہ کھینچتے نہ تقویم دیکھتے۔ پوچھنے والے سے کہتے۔ تم خاموش رہو، جو میں پوچھتا جاؤں اس کا جواب دیتے جاؤ۔ پھر مختلف باتیں پوچھتے جاتے تھے جسے عام طور پر سائل تسلیم کرتا جاتا تھا۔ایک دن ایک ہندو شخص ان کے پاس آیا جو نہایت پریشان اور بے قرار تھا۔
اس وقت ان کے ایک دیرینہ شناسا شیخ عبدالکریم بھی وہیں بیٹھے تھے۔ مومن نے اس ہندو کو دیکھتے ہی پوچھا۔ ’’کیا تمہارا کچھ مال جاتا رہا؟‘‘ اس نے کہا ’’حکیم صاحب! میں لٹ گیا‘‘ ڈپٹ کر بولے ’’خاموش رہو، جو میں کہتا جاؤں اسے غور سے سنتے جاؤ، جو بات غلط ہو اس سے انکار کردینا‘‘۔ پھر پوچھا ’’کیا وہ مال زیور تھا؟‘‘ ہندو نے جواب دیا ’’جی ہاں، وہی تھا میری عمر بھر کی کمائی تھی‘‘ مومن بولے ’’وہ مال یا تمہاری بیوی نے لیا ہے یا خود تم نے۔۔۔۔کوئی غیر چرانے نہیں آیا‘‘۔
وہ بولا ’’صاحب! زیور میری بیوی کا تھا تو بھلا وہ کیوں چرائے گی؟ اور بنوایا میں نے تھا تو میں خود یہ کام کیوں کروں گا؟بھلا ہم دونوں اپنا ہی مال کیوں چراتے؟‘‘ ہنس کر بولے ’’میاں! کہیں رکھ کر بھول گئے ہو، مال کہیں باہر نہیں گیا، گھر میں ہی ہے، اس نے کہا کہ صاحب! سارا گھر چھان مارا کہیں نہیں ملا۔ کوئی جگہ باقی نہیں چھوڑی، ایک ایک کونا دیکھ لیا۔ مومن بولے ’’ایک بار اور جاکر دیکھو ‘‘ وہ دوبارہ گھر گیا اور واپس آکر بولا۔ ’’صاحب! میرا چھوٹا سا گھر ہے، پھر دوبارہ بھی دیکھ لیا، وہاں کہیں نہیں ہے‘‘ وہ بولے ’’نہیں۔۔۔۔میرا علم کہتا ہے مال تمہارے گھر میں ہی ہے‘‘ ہندوگھگھیا کر بولا ’’حضور! آپ خود چل کر دیکھ لیجیے، ایک ایک جگہ کی تلاشی لے لیجیے۔
میں تو ڈھونڈ چکا اور ناکام ہوچکا‘‘ خان صاحب بولے ’’مجھے جانے کی ضرورت نہیں ، یہیں سے بتاتا ہوں، یہ کہہ کر اس کے گھر کا سارا نقشہ بتانا شروع کردیا۔ وہ حیران پریشان ہر بات کی تصدیق کرتا جاتا تھا۔ اور کہتا جاتا تھا کہ آپ تو کبھی میرے گھر آئے نہیں، پھر نقشہ کیسے پتا؟ ڈانٹ کر بولے ’’چپ رہو اور میری باتوں کا جواب دیتے جاؤ‘‘ پھر کیا اس گھر کے جنوبی حصے میں ایک کوٹھری ہے اور اس میں شمال کی جانب ایک مچان ہے لکڑی کا، اس کے اوپر سارا مال موجود ہے، جاکر نکال لو۔ اس نے کہا میں نے تو مچان کو تین دفعہ دیکھا ہے۔ وہاں تو کچھ بھی نہیں۔ فرمایا وہیں ایک کونے میں پڑا ہے جاکر لے لو۔ وہ واپس گیا اور روشنی کرکے دیکھا تو زیور کا ڈبہ وہیں پڑا تھا۔ اس طرح کے کئی اور محیرالعقول واقعات مومن کی زندگی میں ملتے ہیں۔ اپنی اس خوبی کو ایک شعر میں یوں کہا ہے:
ان نصیبوں پر کیا اختر شناس
آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا
علم نجوم ہی کی طرح شطرنج اور طب میں بھی نام پیدا کیا۔ دلی میں دو چار ہی شطرنج کے استاد تھے جو ان سے مقابلہ کرسکتے تھے۔ مزاج میں شوخی اور رنگینی تھی، نہایت خوش وضع، خوش قامت اور وجیہہ آدمی تھے۔ بڑے کمال کے شعر کہے ہیں۔ لیکن کبھی کسی کے لیے قصیدہ نہیں لکھا۔ بڑے ہی خود دار اور اناپرست تھے، تنگ دستی بھی رہتی تھی مگر اظہار نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مہاراجہ کپور تھلہ نے انھیں ساڑھے تین سو روپے مہینہ پر اپنے دربار سے وابستہ کرنا چاہا۔
سفر کے اخراجات کے لیے ایک ہزار نقد الگ بھیجے، وہ تیار بھی ہوگئے، مگر معلوم ہوا کہ مہاراجہ کے درباری گویے کی بھی یہی تنخواہ ہے تو یہ کہہ کر ارادہ بدل دیا کہ ’’جہاں میری اور ایک گویے کی تنخواہ برابر ہو، میں وہاں نہیں جاتا‘‘ عجیب آدمی تھے۔ قناعت سے بھرپور۔ انھوں نے نہ شاعری سے روپیہ کمایا نہ ہی علم نجوم اور علم رمل سے۔ حالانکہ جو علم ان کے پاس تھا اس سے ہزاروں کماسکتے تھے، لیکن کبھی اس علم کو کمائی کا ذریعہ نہیں بنایا۔ غزلوں میں ان کے خیالات نازک اور مضامین اعلیٰ ہیں۔ تشبیہہ و استعارہ کے زور نے انھیں اور بھی اعلیٰ درجے تک پہنچادیا۔ صفائی، سادگی اور سلاست نے ان کے کلام کو کمال کا درجہ عطا کیا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
دشنام یار طبع حزیں پر گراں نہیں
اے ہم نفس نزاکت آواز دیکھنا
دیکھ اپنا حال زار منجم ہوا رقیب
تھا سازگار طالع ناساز دیکھنا
٭٭
اس غیر ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
٭٭
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کرلے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے
٭٭
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
تاریخیں کہنے میں بھی کمال حاصل تھا۔ خود اپنے مرنے کی تاریخ بھی کہی تھی۔ ایک بار کوٹھے پر سے گرگئے، اس کے بعد تاریخ نکالی اور حکم لگایا کہ پانچ دن، پانچ مہینے یا پانچ برس میں مرجائیں گے اور یہی ہوا۔ کوٹھے سے گرنے کے ٹھیک پانچ مہینے بعد انتقال کیا۔ انتقال کے کچھ عرصے بعد ان کے نامی گرامی شاگرد نواب مصطفی خاں شیفتہ نے ایک رات مومن کو خواب میں بہت مضطرب اور ملول دیکھا کہ اب قاصد ان کے پاس مومن کا خط لے کر آیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مومن مرحوم کا خط ہے۔
انھوں نے لفافہ کھولا تو خط کے اختتام پر مومن کی مہر ثبت تھی جس پر مومن جنتی لکھا تھا اور خط کا مضمون یہ تھا کہ ’’آج کل میرے اہل و عیال پر مکان کی طرف سے بہت تکلیف ہے ، تم ان کی خبر لو‘‘۔ صبح کو نواب صاحب نے دو سو روپے ان کے گھر بھیجے اور خواب کا مضمون بھی قاصد کے ہاتھ کہلابھیجا۔ جسے سن کر مومن کے صاحبزادے احمد نصیر خاں نے اس بات کی تصدیق کی کہ واقعی ان دنوں میں ہم پر مکان کی تکلیف تھی۔ برسات کا موسم تھا اور سارا مکان ٹپکتا تھا۔ چند اشعار مزید سنیے!
دعا بلا تھی شب غم سکون جاں کے لیے
سخن بہانہ ہوا مرگ ناگہاں کے لیے
٭٭
ہے اعتماد مرے بخت خفتہ پر کیا کیا
وگرنہ خواب کہاں چشم پاسباں کے لیے
دریچے : رئیس فاطمہ (روزنامہ ایکسپریس ، 25 اپریل 2013)
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
غالبؔ کو یہ شعر اتنا پسند آیا کہ وہ اس کے بدلے اپنا پورا دیوان دینے پر راضی ہوگئے۔ اس شعر کی ساری خوبصورتی لفظ ’’گویا‘‘ میں پوشیدہ ہے۔ بڑا ذومعنی شعر ہے۔ گویا بہ معنی گفتگو بھی اور ’’یعنی‘‘ کے معنوں میں بھی۔ مومن غالب کے ہم عصر تھے۔ دبستان دلی سے تعلق تھا۔ طبابت اور علم نجوم میں مہارت رکھتے تھے۔ ستاروں کی چال جانتے تھے۔ شاعری کے علاوہ نجوم کا خیال آیا تو اس میں وہ کمال حاصل کیا کہ بڑے بڑے منجم حیران رہ گئے۔ جینئس آدمی کی طبیعت کسی ایک کام پر نہیں جمتی۔ مومن خان مومن کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا۔
لیکن ان کے مزاج کی ہنرمندی ایسی تھی کہ جس میدان میں بھی قدم رکھا اسے کمال کے درجے تک پہنچایا۔ سال میں ایک بار تقویم دیکھتے تھے اور پورے سال تک تمام ستاروں کی چال، مقام اور حرکات ان کے ذہن میں محفوظ رہتی تھیں۔ جب کوئی سوال ان کی خدمت میں پیش کرتا تو نہ زائچہ کھینچتے نہ تقویم دیکھتے۔ پوچھنے والے سے کہتے۔ تم خاموش رہو، جو میں پوچھتا جاؤں اس کا جواب دیتے جاؤ۔ پھر مختلف باتیں پوچھتے جاتے تھے جسے عام طور پر سائل تسلیم کرتا جاتا تھا۔ایک دن ایک ہندو شخص ان کے پاس آیا جو نہایت پریشان اور بے قرار تھا۔
اس وقت ان کے ایک دیرینہ شناسا شیخ عبدالکریم بھی وہیں بیٹھے تھے۔ مومن نے اس ہندو کو دیکھتے ہی پوچھا۔ ’’کیا تمہارا کچھ مال جاتا رہا؟‘‘ اس نے کہا ’’حکیم صاحب! میں لٹ گیا‘‘ ڈپٹ کر بولے ’’خاموش رہو، جو میں کہتا جاؤں اسے غور سے سنتے جاؤ، جو بات غلط ہو اس سے انکار کردینا‘‘۔ پھر پوچھا ’’کیا وہ مال زیور تھا؟‘‘ ہندو نے جواب دیا ’’جی ہاں، وہی تھا میری عمر بھر کی کمائی تھی‘‘ مومن بولے ’’وہ مال یا تمہاری بیوی نے لیا ہے یا خود تم نے۔۔۔۔کوئی غیر چرانے نہیں آیا‘‘۔
وہ بولا ’’صاحب! زیور میری بیوی کا تھا تو بھلا وہ کیوں چرائے گی؟ اور بنوایا میں نے تھا تو میں خود یہ کام کیوں کروں گا؟بھلا ہم دونوں اپنا ہی مال کیوں چراتے؟‘‘ ہنس کر بولے ’’میاں! کہیں رکھ کر بھول گئے ہو، مال کہیں باہر نہیں گیا، گھر میں ہی ہے، اس نے کہا کہ صاحب! سارا گھر چھان مارا کہیں نہیں ملا۔ کوئی جگہ باقی نہیں چھوڑی، ایک ایک کونا دیکھ لیا۔ مومن بولے ’’ایک بار اور جاکر دیکھو ‘‘ وہ دوبارہ گھر گیا اور واپس آکر بولا۔ ’’صاحب! میرا چھوٹا سا گھر ہے، پھر دوبارہ بھی دیکھ لیا، وہاں کہیں نہیں ہے‘‘ وہ بولے ’’نہیں۔۔۔۔میرا علم کہتا ہے مال تمہارے گھر میں ہی ہے‘‘ ہندوگھگھیا کر بولا ’’حضور! آپ خود چل کر دیکھ لیجیے، ایک ایک جگہ کی تلاشی لے لیجیے۔
میں تو ڈھونڈ چکا اور ناکام ہوچکا‘‘ خان صاحب بولے ’’مجھے جانے کی ضرورت نہیں ، یہیں سے بتاتا ہوں، یہ کہہ کر اس کے گھر کا سارا نقشہ بتانا شروع کردیا۔ وہ حیران پریشان ہر بات کی تصدیق کرتا جاتا تھا۔ اور کہتا جاتا تھا کہ آپ تو کبھی میرے گھر آئے نہیں، پھر نقشہ کیسے پتا؟ ڈانٹ کر بولے ’’چپ رہو اور میری باتوں کا جواب دیتے جاؤ‘‘ پھر کیا اس گھر کے جنوبی حصے میں ایک کوٹھری ہے اور اس میں شمال کی جانب ایک مچان ہے لکڑی کا، اس کے اوپر سارا مال موجود ہے، جاکر نکال لو۔ اس نے کہا میں نے تو مچان کو تین دفعہ دیکھا ہے۔ وہاں تو کچھ بھی نہیں۔ فرمایا وہیں ایک کونے میں پڑا ہے جاکر لے لو۔ وہ واپس گیا اور روشنی کرکے دیکھا تو زیور کا ڈبہ وہیں پڑا تھا۔ اس طرح کے کئی اور محیرالعقول واقعات مومن کی زندگی میں ملتے ہیں۔ اپنی اس خوبی کو ایک شعر میں یوں کہا ہے:
ان نصیبوں پر کیا اختر شناس
آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا
علم نجوم ہی کی طرح شطرنج اور طب میں بھی نام پیدا کیا۔ دلی میں دو چار ہی شطرنج کے استاد تھے جو ان سے مقابلہ کرسکتے تھے۔ مزاج میں شوخی اور رنگینی تھی، نہایت خوش وضع، خوش قامت اور وجیہہ آدمی تھے۔ بڑے کمال کے شعر کہے ہیں۔ لیکن کبھی کسی کے لیے قصیدہ نہیں لکھا۔ بڑے ہی خود دار اور اناپرست تھے، تنگ دستی بھی رہتی تھی مگر اظہار نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مہاراجہ کپور تھلہ نے انھیں ساڑھے تین سو روپے مہینہ پر اپنے دربار سے وابستہ کرنا چاہا۔
سفر کے اخراجات کے لیے ایک ہزار نقد الگ بھیجے، وہ تیار بھی ہوگئے، مگر معلوم ہوا کہ مہاراجہ کے درباری گویے کی بھی یہی تنخواہ ہے تو یہ کہہ کر ارادہ بدل دیا کہ ’’جہاں میری اور ایک گویے کی تنخواہ برابر ہو، میں وہاں نہیں جاتا‘‘ عجیب آدمی تھے۔ قناعت سے بھرپور۔ انھوں نے نہ شاعری سے روپیہ کمایا نہ ہی علم نجوم اور علم رمل سے۔ حالانکہ جو علم ان کے پاس تھا اس سے ہزاروں کماسکتے تھے، لیکن کبھی اس علم کو کمائی کا ذریعہ نہیں بنایا۔ غزلوں میں ان کے خیالات نازک اور مضامین اعلیٰ ہیں۔ تشبیہہ و استعارہ کے زور نے انھیں اور بھی اعلیٰ درجے تک پہنچادیا۔ صفائی، سادگی اور سلاست نے ان کے کلام کو کمال کا درجہ عطا کیا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
دشنام یار طبع حزیں پر گراں نہیں
اے ہم نفس نزاکت آواز دیکھنا
دیکھ اپنا حال زار منجم ہوا رقیب
تھا سازگار طالع ناساز دیکھنا
٭٭
اس غیر ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
٭٭
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کرلے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے
٭٭
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
تاریخیں کہنے میں بھی کمال حاصل تھا۔ خود اپنے مرنے کی تاریخ بھی کہی تھی۔ ایک بار کوٹھے پر سے گرگئے، اس کے بعد تاریخ نکالی اور حکم لگایا کہ پانچ دن، پانچ مہینے یا پانچ برس میں مرجائیں گے اور یہی ہوا۔ کوٹھے سے گرنے کے ٹھیک پانچ مہینے بعد انتقال کیا۔ انتقال کے کچھ عرصے بعد ان کے نامی گرامی شاگرد نواب مصطفی خاں شیفتہ نے ایک رات مومن کو خواب میں بہت مضطرب اور ملول دیکھا کہ اب قاصد ان کے پاس مومن کا خط لے کر آیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مومن مرحوم کا خط ہے۔
انھوں نے لفافہ کھولا تو خط کے اختتام پر مومن کی مہر ثبت تھی جس پر مومن جنتی لکھا تھا اور خط کا مضمون یہ تھا کہ ’’آج کل میرے اہل و عیال پر مکان کی طرف سے بہت تکلیف ہے ، تم ان کی خبر لو‘‘۔ صبح کو نواب صاحب نے دو سو روپے ان کے گھر بھیجے اور خواب کا مضمون بھی قاصد کے ہاتھ کہلابھیجا۔ جسے سن کر مومن کے صاحبزادے احمد نصیر خاں نے اس بات کی تصدیق کی کہ واقعی ان دنوں میں ہم پر مکان کی تکلیف تھی۔ برسات کا موسم تھا اور سارا مکان ٹپکتا تھا۔ چند اشعار مزید سنیے!
دعا بلا تھی شب غم سکون جاں کے لیے
سخن بہانہ ہوا مرگ ناگہاں کے لیے
٭٭
ہے اعتماد مرے بخت خفتہ پر کیا کیا
وگرنہ خواب کہاں چشم پاسباں کے لیے
دریچے : رئیس فاطمہ (روزنامہ ایکسپریس ، 25 اپریل 2013)