مومن خان صاحب مومن سے ایک گفتگو۔۔۔
( اتوار کی صبح ہے۔ ہرطرف خاموشی چھائی ہے اور میں گھر کے آفس میں مراقبہ کررہا ہوں ۔ میرا ذہن مکمل خاموش ہے۔ اچانک میں دیکھتا ہوں کہ میں ایک کرسی پر مومن خان مومن کے سامنے بیٹھا ہوں۔)
تفسیر ۔ یہ ریڈیو کائنات ہے۔ ہم آج مومن خان مومن سےگفتگو کریں گے۔ حکیم مومن کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔
میرا پہلا سوال یہ ہے کہ آپ کا قیام آج کل کہاں ہے؟
مومن ۔ مجھے یہ بتانے کی اجازت نہیں ہے۔
تفسیر ۔ جہاں آپ ہیں وہاں حوریں اور غِلماں ہیں۔
مومن ۔ تفیسر، مجھے یہ بتانے کی اجازت نہیں ہے۔ ویسےمولانا حالی نےذکر کیا تھا کہ آپ کا پہلا سوال یہ ہی ہوتا ہے۔
تفسیر ۔ چلئے یہ بتائے آپ کی کب اور کہاں پیدائش ہے اور کتنے عرصہ یہاں گزرا؟
مومن ۔ میں ہندوستان کے ایک شہر دِلّی میں 1801 میں پیدا ہوا۔ اور میرا انتقال 1852ہوا۔
تفسیر ۔ پچپن کی تعلیم
مومن ۔ بنیادی تعلیم کے بعد والدصاحب نے شاہ عبدالقار کے پاس بھیج دیا جن سے میں نے عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔
تفسیر ۔ اور طب بھی تو۔۔۔
مومن ۔ جی ہاں جب عربی میں کچھ سمجھ بوجھ آگئی تو والد صاحب اور چچا غلام حیدر خان سے اور حکیم غلام حُسن خان سےطب کی کتابیں پڑھیں ۔
تفسیر ۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کا حافظہ بہت ہی اچھا ہے ۔ آپ کسی کو بھی ایک دفعہ سن لیں تو ہوبہو دُہرا سکتے ہیں۔
مومن ۔ ہا ں مدرسہ میں شاہ صاحب جو بھی بات کہتے تھے۔ مجھےلفظ بہ لفظ یاد ہوجاتا تھا۔
تفسیر ۔ تو پھر حکمت سے شاعری کیسے ۔۔۔
مومن ۔ تفسیر، میرا ایک فن پر کبھی دل نہیں جما۔ شاعری اور نجوم سے بھی دلچسپی ہوئی۔
تفسیر ۔ مولانا آزاد نےآب حیات میں لکھا ہے کہ آپ کےاحکام سن کر بڑے بڑے منجم حیران رہ جاتے تھے۔آپ سال میں صرف ایک بار تقویم دیکھتےتھے۔ پھر سارا سال تمام ستاروں کےمقام اور انکی حرکات کی کیفیت ذہن میں رہتی تھی جب کوئی سوال پیش کرتا ، تو آپ نہ زائچہ کھینچتےاورنہ تقویم دیکھتے تھے۔ پوچھنےوالے سے کہتے کہ تم خاموش رہو۔ جو میں کہتا جاؤں اس کا جواب دیتے جاؤ ۔
مومن ۔ ( مسکرا کر ) یہ واقعی صحیح ہے یہ مولانا آزاد کون تھا ؟
تفسیر ۔ نجوم کے علاوہ آپ کو شطرنج میں بھی کمال تھا۔ اور شہر کے ایک دو شاطروں کے علاوہ کسی سے کم نہیں تھے۔
مومن ۔ ہاں دلی کے مشہور شاطر کرامت کو میں نےشطرنج میں اکثر ہرایا ہے۔
تفسیر ۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی عاشق مزاجی نےشعر و سخن کو اور بھی چمکایا۔ آپ کو رنگین طبع، رنگین مزاج وخوش وضع، خوش لباس کہا گیا۔
مومن ۔ ( قہقہہ لگا کر ) ارے تفسیر تم کیا یاد لاتے ہو۔
عمرساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن
تفسیر۔ آپ کے استاد کون تھے؟
مومن ۔ شروع میں چند روز شاہ نصیر کو کلام دیکھاتا تھا۔ اس کے بعد بغیر استاد کے شاعری کی۔
تفسیر ۔ مگر کافی نامی گرامی شاعروں نےتو آپ کی شاگردگی کی۔ آپ کے شاگردوں میں شیفتہ، وحشت اور نسیم کا نام اس وقت ذہن میں آرہا ہے۔
مومن ۔ ( ہنس کر ) یہ تو الٹی کہی تفسیر تم نے۔ ارے بھائی وہ تو پہلےشاعرتھے۔ مجھ سےشاگردگی کے بعد نامی گرامی ہوئے۔
تفسیر ۔ بجا فرمایا آپ نے۔ آپ نے قصیدے لکھنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ اور آپ اتنے غیور تھے یہاں تک کہ کسی دوست کا احسان نہیں لیا۔
مومن ۔ ہاں ، میں صرف ایک دفعہ راجہ اجیت سنگھ نے ایک ہتنی دے کر مجھ پرعنایت کی ۔ تو میں نےقصیدہ مدحیہ شکریہ میں کہہ دیا۔
اس کا مطلع ہے
صبح ہوئی تو کیا ہوا، ہے دہی تیرہ اختری
کثرتِ درد سے سیاہ شعلئہ چمع خاوری
تفسیر ۔ آپ کی شاعری میں محبت اور خوبصورتی کی تعریف ہوتی ہے اور اگر آپ فارسی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو وہ بھی آسان ہوتے ہیں۔ آپ متصوفانہ محبت اور فلسفانہ خیالات سےدور رہتے ہیں۔
آپ کا ایک شعر ہے
تم میرے پاس ہوتے ہوگویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مومن ۔ ( مسکرا کر ) ہے تو میرا ہی۔
تفسیر ۔ روایت ہے کہ دہلی کے ایک مشہور شاعر مرزا اسد اللہ غالب اس شعر کے بدلے میں آپ کواپنا پورا دیوان دینے کو تیار تھے۔
مومن ۔ ( مسکرا کر ) غالب ؟ ۔۔۔ نام توجانا پہچانا لگتا ہے۔۔۔ تم کہتے ہو تو مان لیتا ہوں ۔ تم مجھ سے جھوٹ تو نہیں بولو گے۔۔۔ کیا تم؟
تفسیر ۔ مومن صاحب ایک بات بتائیں اور بات آپ کے اور میرے درمیان رہےگئ ۔ ہم اس سوال کا جواب اس انٹرویومیں سےنکال دیں گے۔
مومن ۔ ایسی کیا بات ہو سکتی ہے! پوچھیں۔
تفسیر ۔ روایت ہے کہ آپ کے مرنے کے بعد لوگوں نےعجیب عجیب خواب دیکھے۔ ایک خواب کو سچا کہا جاتا ہے۔ نواب مصطفی نے خواب میں دیکھا کہ آپ نے ایک خط ان کو بھیجا ہے جس میں ایک مہر لگی ہے اس مہر میں آپ کا نام مومن جنتّی تحریر ہے۔ اور خط کا مضمون یہ ہے کہ میرے عیال پر مکان کی طرف سے بہت تکلیف ہے تم ان کی خبرلو۔ نواب مصطفی نے روپے بھجوائے۔ آپ کے صاحبزادے کا کہنا ہے کہ ان دنوں واقعی بارش کی بنا پر چھت ٹپک رہی تھی۔
میرا سوال یہ ہے۔
کیا آپ واقعی جنتّی ہیں؟
مومن۔ ۔ تفسیر، تم نے وہ مشہور کہنا توسننا ہوگا۔
تفسیر ۔ کونسا۔
مومن ۔ اگر میں تم کو یہ حقیقت بتادوں تو مجھے تم کوجان سےمارنا ہوگا۔ تیار ہو؟
تفسیر۔ نہیں حکیم صا حب ۔۔۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ جنت میں یا دوزخ میں، میرا آسمان پرنہیں فی الحال فرش پر رہنے کا ارادہ ہے۔
مومن خان مومن صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ ریڈیو کائنات سےتفسیر سب کو شب خیر کہتا ہے۔
وہ جو ہم میں تم میں قرارتھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جولطف مجھ پہ تھا پیشتر، وہ کرم کہ تھا میرے حال پر
مجھےسب ہے یاد ذرا ذرا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئےگِلے وہ شکایتیں، وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہرایک بات پہ روٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھےسب میں جو روبرو، تو اشارتوں سے ہی گفتگو
وہ بیان شوق برملا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئےاتفاق سےگر بہم، تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلہ ملامتِ اقرباء، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بُری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم سےتم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سنو ذکر ہے کئی سال کا، کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سونباہنے کا تو ذکر کیا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی، مرے دل سےصاف اترگئ
تو کہا کہ جانےمری بلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بِگونا وصل کی رات کا، وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گنتے تھے آشنا، جیسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومن مبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو