مونو لاگ (خود کلامی) ------ سید انور جاوید ہاشمی

مغزل

محفلین
لمحوں کی بازگشت
مونو لاگ:سیدانورجاویدہاشمی

باب ِ اوّل

میں:
یہ کُرّہ ایٹمی میزائلوں ، بارود کی جنگوں کی
کیوں کر تاب لائے گا؟
بتاؤ تم! یہ کُرّہ آدمی کا مامن و مسکن نہیں ہے کیا ؟
کہا شایاں ؔ نے کیوں آخر ؎
وہ آگ ہے کہ خاک ہوئی جاتی ہے فضا
تپتی زمیں کو سایۂ اشجار کون دے
(ذکاء الدین شایاں’’ریگ ِ سیاہ‘‘)

ہاتف:
یقینا گنبد ِ بے دَر پہ دستک دینے والے آدمی ہو تم
یہاں پر ’’آدمی‘‘ کی بات ہر انسان کرتا ہے
مگر انسان ہی انسان کی تذلیل کا خوگر بنا ہے یاں
میں:
عجب نکتہ نکالا گفتگو کرتے ہوئے ، لیکن
ابھی تک ’’گُنبد ِ بے در ‘‘ کا مطلب میں ؔ نہیں سمجھا!
ہاتف:
حَماقَت، عقل کی مِحراب کے سائے میں رہتی ہے
تعقُّل سے ہُنر منَدی کا اِک گُونہ تعلُّق ہے
میں:
ت +عقل سے تعلق بن گیا کیسے ؟
ہاتف:
عمَل اور عِلم ہم رشتہ نہیں ہیں کیا!
ع م ل = ع ل م
یہ سارا کھیل لفظوں اور لمحوں کی ہلاکت خیزیوں کے دائرے میں ہے
میں:
مگر اس گُنبد ِ بے دَ ر ‘‘ کا مطلب! کچھ وضاحت بھی؟
کسے آواز سمجھے آدمی اور کس طرح سمجھے!
ہاتف:
مثال ِ دائرہ ہے یہ کُرہ
یوں دائرہ در دائرہ ، پانی، ہوا، مٹی
مُیسر آگ ہو پھر بھی
سبھی اک دائرے کی حد میں رہتے ہیں
حد ِ ادراک کہہ لو یا مسلسل جبر کی پابندیوں کا سلسلہ جانو،
اگر انسان بھی اپنی حدوں اور دائروں میں قید ہوکر
اپنی آزادی کو منوالے
خدا کی ہر رضا کو اپنی مرضی اور رضا سمجھے
یہ حّد ِ بے نہایت
اُس کو شرف ِ آدمیت بخش دیتی ہے
فضائے نیل گوں سے ارض کی آخر تَہوں تک
آدمی کی دسترس میں ساری دُنیا ہو
بڑے بڑوں کو یہاں دیکھنے کے بعد نظامؔ
پتا چلا کہ بڑے آدمی تو ہم بھی ہیں
(نظام امینی)

میں:
مگر پانی، ہوا ، مٹی عناصر ہیں سبھی یاں کے
انھیں کیوں دائرے میں کردیا شامل؟
ہاتف:
مُرادی اور مجازی لفظ و معنیٰ میں تفاوت ہے
وہی جو فرق بینا اور نابینا کی آنکھوں میں نظر آئے
ہم اپنی آنکھ سے ظاہر کو دیکھیں اورسمجھیں دیکھتے ہیں ہم!
اُسے قدرت نے نور ِ لمس بخشا ہے
بصارت آدمی کی بے بصیرت کام کب آئے!
میں:
یہ باتیں کتابی ہیں یا اکتسابی ؟
یہاں کون پُرساں ہوا ہے کسی کا
ہاتف:
نہیں !دیکھو جوہر سعیدی کی غزلیں ؎
ہر طرف دیکھے اگر تیمار دار
آدمی بیمار ہوجائے بہت

تو آدمی بیمار کب ہوتا ہے ، یہ معلوم ہے؟
اپنی روٹی کے لیے حق مانگتا ہے اور جب مل جائے
غیروں کی طرف اُس کی نگاہیں گھوم جاتی ہیں
پلک اُوپر اُٹھے
تو سامنے کی چیز اوجھل ہو نگاہوں سے
اسی نسبت سے یہ تاکید ہے انسان کو
’’ نیچی رکھو نظریں ‘‘
میں:
یہ حفظان ِ صحت کی بات لگتی ہے مجھے صاحب !
ہاتف:
توقّف کیجیے حضرت، ذرا سنئیے ؎

سننے والے حواس کھو بیٹھے
بات کرنے کو جب شعور ملا

ہم تو بے حال تھے مگر جوہر
وہ بھی زخموں سے چُور چور ملا
(جوہر سعیدی)

میں:
زخم، بے حالی اور بیماری!

کیا کسی اسپتال میں ہیں ہم !
یا ابھی تک ملال میں ہیں ہم
کس قدر دیکھ بھال میں ہیں ہم
ہاتف:
نادیدہ منظروں کو اگر چاہیں دیکھنا
اپنی ہی ذات سے کوئی پردا اُٹھائیے
(تابش دہلوی)

میں:
ایسا لگتا ہے آج کے شاعر
اپنی ہی شخصیت کو لکھتے ہیں
ہاتف:
بات ایسے نہیں ، مرے بھائی
خود کلامی سے خود شناسی ملے
شعر جوہر ؔ کا اور سن لیجیے
راہ در راہ مرے نام کے کتبے ہوں گے
جب مر ا قافلہ ٔ عُمر گزر جائے گا
(جوہرسعیدی)

میں:
ایسا مضمون مجھے شوق ؔ کی غزلوں میں نظر آتا ہے ؎
ہم نہیں ہوں گے مگر ہم جیسے دیوانوں کا نام
وقت کی دیوار پر لکھّا ہوا رہ جائے گا
(رضی اختر شوق ؔ )

ہاتف:
یہ کوئی دعوی ٰ نہیں ، یہ آرزو ہے شوق ؔ کی
اُن کے ہونٹوں پر مچلتی آرزو یہ بھی تو ہے ؎

میری آواز کو تصویر بنادے یارب
دے مرے خواب کو نغمہ جو اثر لے آئے

مَدنی کی شاعری بھی ذرا دیکھتے چلیں ؎

یارب تُو لاج رکھ مرے شوق ِ فُضول کی
دُنیا ہے نیند میں ، مری آواز سے اُٹھا !
(عزیز حامد مدنی)

میں:
زندگی بھر آدمی شاعر تو رہ سکتا نہیں
دیکھیے فرماگئے ہیں آپ کے حضرت قتیل ؎

ڈر رہا ہوں عُمر کی ناپائداری سے قتیل
وقت کے ہاتھوں نہ جائیں چھِن یہ میرے رات دن
(قتیل شفائی )

اس کے بر عکس سُنیں ؎
سب جلال ِ منصبی سیل ِ فنا لے جائے گا
لاکھ ہم لکھتے رہیں پائندگی دیوار پر
(محسن احسان )

ہاتف:
اس حقیقت سے تو انکار نہیں ہے لیکن ،
ایسی باتوں پہ یگانہ ؔ نے یہی لکھّا ہے ؎

ہوا جو بگڑی تو ٹھنڈا ہی کرکے چھوڑے گی
ہزار شعلہ ٔ بے باک سر کشیدہ سہی
(میرزاواجدحسین یاس یگانہ چنگیزی)

میں:
آپ کو یاد رہے کیسے یگانہ ؔ آخر
ان کے مداح تو مشفق ؔ بھی تھے محبوب ؔ بھی ہیں
(مشفق خواجہ مرتب : کلیات ِ یگانہ ، اکادمی بازیافت، کراچی اور حضرت ِ محبوب خزاں اکیلی بستیاں بسانے والے)

ہاتف:
مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
(رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری)

میں:
آپ تو اسلوب میں یوں کھوگئے ؎

اک اشک اکیلا دل ِ معتوب سے نکل
پھر ایک زمانہ مرے اسلوب سے نکلا
(احسن سلیم)

گفتگو آپ کی ہے گرم بیانی جیسے
تشنہ لب پی چکے دریاؤں کا پانی جیسے
(انورجاویدہاشمی)

ہاتف:
یہ تو وہ بات ہوئی ؎
معرض ِ گفتگو میں ہیں تازہ تریں مُکاشفات
ارض و سماء سُنو سنو!گرم ِ بیاں ہے آدمی

میں:
مجھ کو بھی یاد آگیا ؎

حیرت و اشتیاق سے دیکھ رہے ہیں برق و باد
کون سی منزلوں کی سمت تیز رواں ہے آدمی
(نہال سیوہاروی)

ہاتف:
منزل تو خیر کیا کہیں، یہ سارے رہگزر میں ہیں
میں:
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم کوئی ہمیں اُٹھائے کیوں
رہگزر کے بعد کیا آتا ہے کچھ بتلائیے؟
ہاتف:
دیکھیے، اپنے خزاں ؔ صاحب کی یہ اِک نظم ہے :۔
میں سوچتا ہوں کہ اس خیر و شر کے بعد ہے کیا
فضا تمام نظر ہے نظر کے بعد ہے کیا
شب انتظار ِ سحر ہے، سحر کے بعد ہے کیا
دُعا برائے اثر ہے اثر کے بعد ہے کیا
یہ رہ گز ر ہے تو اس رہ گزر کے بعد ہے کیا
(محبوب خزاں۔۔۔اکیلی بستیاں)

میں:
تو یہ سوال رہا تشنہ ٔ جواب ابھی
ہاتف:
پھر وہی سلسلہ تشنگی کا
دل کشی دل کی عادت پرانی
(محبوب خزاں)

شاعری میں یہی کچھ ملے گا ؎
ہجر پر شعر لکھیں وصل کے خواب آئندہ
یعنی اس وقت سوال اور جواب آئندہ
(محبوب خزاں)

میں:
یہ ہجر و وصل نہایت عجیب موضوع ہے ؎
وہ اور ہوں گے جنہیں دوسروں نے ہجر دیا
یہا ں تو خود ہی کیا ارتکاب ِ تنہائی
(عزم ؔبہزاد )
فضا میں پھیل گئی لمحہ بھر کو خاموشی !
آوازیں سائے دیتی یا سائے کی آوازیں

سکوت توڑنا لازم ہے گفتگو کے لیے
لہو بھی چاہیے عاشق تجھے وضو کے لیے!
(انورجاویدہاشمی)

آپ کو یہ خاموشی یوں بھی زیب دیتی ہے
گاہ یوں بھی ہوتے ہیں صاحب ِ سُخن خاموش
(قمر جمیل)

رات کے جاگے صبح کی ہلکی نرم ہوا میں سوئے ہیں
دیکھیں کب تک نیند کے ماتے اُٹھنے میں تاخیر کریں
(قمر جمیل)
پہلا باب ختم ہوا
----------------------
دوسرا باب
(ناشتے سے فراغت کے بعد )


میں:
دم بھر کو چلتے چلتے ہم کیا ٹھہر گئے ہیں
لہرا اُٹھے ہیں صحرا دریا ٹھہرگئے ہیں
ہاتف:
یہ کائنات ساری تصنیف ہے ہماری
اک مسئلہ محبؔ ہم جس کا ٹھہرگئے ہیں
( ایسا لگتا ہے کہ شاعر پیش بینی کرگیا)

ذکر اُس محفل میں اپنا ہو کہیں ایسا نہ ہو
دل ہمارا ٹھیک کہتا ہو کہیں ایسا نہ ہو
(محب عارفی)

میں:
عارفی ؔصاحب پہ کیا موقوف ہے
یاں جتنے حلقے ہیں
وہاں پر ذکر ہوتا ہے اُنہیں کا
جو نہیں ہوتے نظر کے سامنے
اور جو موجود ہوں ؎
اپنی انا کی آنکھ کو بھایا نہیں کرتے
وہ اک حلقہ کراچی کا
سلیم احمد جہاں خود میزبان و میر ِ مجلس تھے
مسلسل حاضری کے بعد بھی
گم نام ہم ٹھہرے
خموشی ، احترام ِ آدمیت کا تقاضا تھی
کبھی سرور، فراست اور دیگر نوجواں آتے
خطاب اُن کا سنا جاتا ؎
عجیب رسم ِ تکلّم ہمیں مُیسر ہے
خطاب اُسی سے بظاہر نگاہ خود پر ہے
(الف جیم ہاشمی)

ہاتف:
تعلق شاعروں کا
فکر و فن کے مرتبے کے ساتھ بنتا ہے
کون سا نغمہ کھلا، کون سا پژمُردہ ہوا
خاک ِ دل جانتی ہے شاخ ِ گلو کیا جانے
(لیاقت علی عاصمؔ)

سُخن ، اہلِ سخن پر خوب سجتا ہے
کوئی گمنام رہتا ہے کوئی ناکام ہوتا ہے
زمانہ مکر کا، عیاریوں کا دیر تک باقی نہیں رہتا
منافق آدمی کا دل
زبان ِ خلق کا نقّارہ کیا جانے

میں:
آج کے شاعر ہوں یا فن کار
سب اپنے سِوا گردانتے ہیں اور کس کو!
فلسفہ، حکمت، محبت، آگہی
تہذیب ِ رسم ِ عاشقی مفقود ہیں
اب شاعری اوہام اور ابہام کا ہی نام ہے ؎
آرائش ِ جمال میں اتنے بھی گم نہ ہو
حیرت میں آئینہ کہیں حد سے گزر نہ جائے
(عالمتاب تشنہ)

ہاتف:
دیکھیے صاحب !
یہ جو الزام شاعر اور فن کاروں پر آیا ہے
یہ معذوری ہے یا پھر آپ حاسد بن گئے ہیں
یہ جمع و خرچ ِ زبانی ہے نقدِ شعر و سخن
مگر یہی تو کمائی ہے زندگی بھر کی
(شاذ تمکنت)

میں:
زندگی کے باب میں محنت کے بدلے ہر کوئی
اُجرت کا طالب ہے
یہاں ہر جنس کا اک مول ہے
لیکن تفکّر اور تعقل ایسا سرمایہ ہیں
جن کا ناپ ہے ناں تول ہے ؎
زندگی بھر کی کمائی ہیں یہ مصرعے ہیں دوچار
ایسی باتوں سے تو شہرت نہیں ملنے والی
(افتخار عارف)

ہاتف:
بالیقیں اقبال ؔ بھی فرماگئے ؎
تو اسے پیمانہ ٔ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں ، پیہم رواں، ہرد م جواں ہے زندگی
میں:
آپ یہ اقبال ؔ کے افکار کیوں لائے یہاں!
حضرت ِ اقبال ؔ سے محمود کا شکوہ سنیں ؎
ہم نے اقبال ؎ کا کہا مانا
اور فاقوں کے ہاتھوں مرتے رہے
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں
ہم خودی کو بلند کرتے رہے
(محمود سرحدی)
ہاتف:
احساس اور ادراک کی سرحد سے کوسوں دور
دُنیا کی طلب میں آدمی
چاہتا ہے وہ بھی مل جائے
کہ جس کے بعد پچھتانا پڑے
اقبالؔ نے اپنی خودی کی بات کی
جو لوگ بے خود ہوگئے
تدبیر سے دامن کَشی اُن کا مقدر بن گئی ؎

تدبیر سے جو ہاتھ اُٹھا لیتا ہے اپنا
وہ شخص مقدر کا سکندر نہیں ہوتا
(الف جیم ہاشمی)
میں:
تو مطلب یہ کہ اپنی کوشش ِ پیہم ضروری ہے ع ؎
’’ لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں ‘‘

ہاتف:
یقینا آپ میرا مدعا اب خوب سمجھے ہیں
میں:
مگر ان شاعروں نے ’’میں‘‘نے آگے کچھ نہیں دیکھا
انا الحق کہنے والا، خود کو چاہے، نیست اور نابود کرڈالے
مگر یہ ’’ میں ‘‘
اُسی ادراک کا پرتو نظر آئے ؎
ہونٹوں سے ہو مانوس اگر حق تو جُنوں کو
اک نعرہ ٔ منصور سرِ دار بہت ہے
(عرفانہ عزیز)

’’مجھے معلوم ہے، میں جانتا ہوں ‘‘
دیکھیے اس شاعرہ کی فکر اور ادراک بھی دیکھیں ؎
اُسی مِلک ِ سُخن میں رہتی ہوں
میرؔ نے جس پہ حکمرانی کی
(فاطمہ حسن)
ہاتف:
اگر اس ’’ میں ‘‘ کو اپنے سامنے رکھیں تو
’’ تو‘‘ ٹھہرے ؎
مئے کو میخوار سمجھتا ہے سُبو کیا جانے
مجھ میں جو نشّہ ہے اس نشّے کو تُو کیا جانے
(لیاقت علی عاصم)

میں:
سُنا ہے ہم نے کہ غالب ؔ کی بھی ’’ میں‘‘ تھی ؎
میںؔ ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب ؔ کہ دل
دیکھ کر طرز ِ تپاک ِ اہل ِ دُنیا جل گیا
ہاتف:
میںؔ، صفات و ذات کے احساس کو
اور اپنے گرد و پیش ’’ہونے ‘‘ اور ’’ ہوچکنے ‘‘ کو گر محسوس کر ڈالے
شعوری طور پر ، اندر سے باہر
اک الگ انسان کو وہ ڈھونڈ سکتی ہے
کبھی بے خود، کبھی وہ دم بخود ہوکر
فرائض کی کمانیں تھام لیتی ہے،
میں:
دیکھ کر طرز ِ تپاک ِ اہل ِ دنیا جل گیا
افسردگی کی آرزو میں دل
مگر ایسا بھی ہوتا ہے ؎
تو نہیں تھا تو لوگ مجھ سے ملے
میں نے دیکھی تری پذیرائی
(لیاقت علی عاصم)

ہاتف:
رشک اس میں ہے کہ یہ اعزاز ’’ میں‘‘ کو
ُ تو ‘ کی نسبت سے ملا
کس قدر شائستگی ہے
آدمی اپنی ’’ اَ نا ‘‘ سے کس قدر مغلوب ہے
اور دیکھیں ؎
بات کی گفتگو سے بچتے ہوئے
میں ؔ سے کترا کے ’’تو ‘‘سے بچتے ہوئے
(لیاقت علی عاصمؔ)

یہ سمجھئے ’’ میں ‘‘ بشر کے ظاہر ی افکار کا اظہار ہے ؎
بشر وہی ہے کہ جس میں ہو شر کی آمیزش
یہ ’’مشت ِ خاک ‘‘ بشر کے سوا کچھ اور نہیں
(مجید لاہوری)

میں:
یہ شر ہے آگ میں ، پانی میں یا کہ مٹی میں؟
بشر کے چار عناصر میں ہیں یہی تینوں!
ہاتف:
یہ منحصر ہے انھیں کس طرح سے برتا جائے
کسی کا شر بھی کبھی خیر بن کے آتا ہے
جلے جو آگ شرارت سے تیرہ راتوں میں
اندھیری راہ میں وہ رہ نمائی کرتی ہے ؎
تمام شہر تھا تاریکیوں میں ڈوبا ہوا
وہ اپنے گھر کو جلانے میں حق بجانب تھا
(اعجاز رحمانی)

میں:
عجیب آپ کی ہوتی ہیں منطقی باتیں
جو شر کی بات ہے وہ خیر ہو نہیں سکتی
یہ گھر نہ تھا کسی ویراں سرائے کا تھا دیا ؎
رہ سلامت روی پہ قائم تو
خیر ہے خیر ، شر ہے شر مت جا
(الف جیم ہاشمی)

ہاتف:
سفر کی شام تھی اور رات کے پڑاؤ میں
وہ خود نہیں تھا مگر اس سے خوب باتیں کیں
(توقیر چغتائی)

میں:
یہ جاننا کہ نہیں ہوں یہ ماننا بھی کہ ہوں
کسی کو میرے سوا یہ ہنر نہ آئے گا
(محب عارفی)

ہاتف:
عقیل عباس کا اک شعر سن لیں اور سوجائیں ؎
ا٘سی سے گفتگو کی آرزو ہے
ا٘سی سے گفتگو ہوتے ہوئے بھی
(عقیل عباس جعفری)

سکوت ۔۔۔۔
( آدھی رات کو دونوں عالم ِ خواب میں پہنچے )
(دوسرا باب ختم ہوا)
---------------------
تیسر ا باب

میں:
ہجر بس ایک حقیقت ہے
باقی سارا کھیل تماشا
یعنی بچھڑ کر جب بھی نظر خاموش ہوئی
تو ایسے لگا
جیسے لہو خاموش ہوا
ہاتف:
سلام ِ صبح! یا احباب ِ مجلس رات کس طرح گزاری، کیسے گزری!
میں:
رات اور دن میں نہیں فرق مرے پیش ِ نظر
زندگی ہر نفس ہے کارِ ہنر
کیسے کہہ دوں کہ امتحاں میں نہیں
(خالد معین)
اور
ہوجاتے ہیں دنیا سے جب معمولات الگ
پھر نہیں لگتی ہم مستوں کو دن سے رات الگ
زخم ِ تمنا کیسے رفو ہو ، کوئی نہ بتلائے
ا٘س نے تماشے سے رکھّا ہے اپنا ہات الگ
(الف جیم ہاشمی)
بقول ِ عاصم
شروع ِ عشق میں سمجھے تھے ہم بھی
فراغت مل گئی کارِ جہاں سے

گزشتہ رات مرے لاشعور کی تہہ سے
کئی خیال، کئی خواب اس طرح گزرے
میں چاہتا تھا کوئی ہم خیال مل جائے
کسی سے خواب کی تعبیر پوچھ لی جائے
یہی بہت ہے زمانے میں چار دن کے لیے
اگر حیات کٹے ایک ہم خیال کے ساتھ
(شاذ تمکنت)

ہاتف:
سخت مشکل ہے ہم خیالی بھی
عمر بھر ساتھ عمر بھر تنہا
(ثناء گورکھپوری)

اور تعبیر کے لیے سنیی
عزم کا شعر سُن کے سر د٘ھنیے

خواب ہی دیکھتا رہتا تو کوئی بات نہ تھی
میں نے تعبیر بھی چاہی سو پریشان ہوا!
(عزم بہزاد)

میں:
یہ کلّیہ ہے ہر اک خواب دیکھنے والا
یہ چاہتا ہے کہ تعبیر خواب کی نکلے
خواب کیا جھوٹے، سچّے ہوتے ہیں ؟
ہاتف:
اپنے شاعر کی کیفئت ہے یہی
ہمارا خواب کیا جھوٹا تھا جو تعبیر تک پہنچا
نہ مجنوں کو ملی لیلیٰ، نہ رانجھا ،ہیر تک پہنچا
(لیاقت علی عاصم)

میں:
تو یہ عقدہ کھ٘لا کہ آدمی، تعبیر گر پائے
ا٘سے یہ خیال آتا ہے ، کہ شاید خواب جھوٹا تھا
سیاسی خواب بھی دیکھیں شعوری خواہشوں جیسا
رات دیکھا خواب میں نے اِک وفاقی قِسم کا
میں وزیر ِ باجرہ ہوں، تو وزیر ِ گھاس ہے
(سعید آغا)

ہاتف:
کسی کی فکر کی تفہیم کب آسان ہوتی ہے
اگرچہ یہ حقیقت ہے:
’’ تمہارے رب نے کچھ تخصیص کردی ہے،
نظام ِ زندگی میں درجہ بندی
حوصلے کی، جراء توں کی ہے
یہاں جو صاحب ِ کردار بن جائے
ا٘سی کی آزمائش ہے
(سورۃ الانعام آیت ۱۶۵)
میں:
تو کیا اس مکر کی د٘نیا میں، نرمی ، در گزر سے کام لینا ہے؟
ہاتف:
ا٘لجھتے ہیں وہی باہم کہ جو لاعلم ہوتے ہیں
جہالت جن کا ورثہ ہو
اَنا کی تیز اَنی سے چھیدتے ہیں
روح ِ انسانی کو، انسانوں کے سینے کو
عمل کرتے ہیں تو ردّ ِ عمل میں
نیکیاں بھولے سے سرزد ہوں
تو یہ سو بار گنوائیں
نہ پوری ان کی حاجت ہو
اللہ رے یہ وسعت ِ دامان ِ احتیاج
انسان کا ضمیر بھی نیلام گھر میں ہے
(ابرار عابد)
اسی احساس کو اس طور بھی دیکھیں
بدن قرطاس ہے نوک ِ سناں سے
میں گونگا ہی بھلا ایسی زباں سے
(لیاقت علی عاصم)

میں:
بشر کی بات کرتے کرتے ہم
انسان کی خواہش سے
فطرت اور جذبے سے شناسا ہورہے ہیں
آدمی کے باب میں ا٘س رہ گزر کے بعد
اِس منزل تک آئے ہیں

سیّارچے تسخیر کیے جاتا ہے انساں
اور اس کی مشقت کا ثمر کچھ بھی نہیں ہے
(م ،م ،مغل)

مگر اس گفتگو کو،راستوں کے پیچ و خم میں
کس طرح چھوڑیں ؟
ہاتف:
یہی ہوتا چلا آیا ازل سے، اور
شاید تا ابد ہوتا رہے گا
ایک دن آئے کہ جب
ہر آدمی تنہا رہے، تنہا چلا جائے
نہ کوئی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
میں:
جدائی شاق ہے تاہم یہ اچھا ہے کہ
کوئی آخری اک نقش رہ جائے؟
ہاتف:
آئیے نظم سنیں اور بچھڑ جائیں ہم
’’ قافلے ہیں جستجو کے بحر و بر کے درمیاں
دانش ِ حاضر کی محرم کامگار ِ رو ح ِ عصر
تازہ نسلیں آرہی ہیں توڑ کر حد بندیاں
یہ غم ِ حرف و سخن کی سہل انگاری ہے اور
تربیت گاہوں کی ابجد اور، نقشے اور ہیں
اور کچھ بنیاد ِ جاں ہے، روح ِ بیداری ہے اور
نیم جاں، آہستہ رو تہذیب کے حلقے میں ہم
دور ِ نو کی آگہی کو مسخ تر کرتے ہوئے
آچکے ہیں آتش ِ تادیب کے حلقے میں ہم
مغز ِ کہ٘نہ کے ب٘رادے سے غذا چھنتی نہیں
پارہ پارہ ذہن کی اک جاں کنی کی جست و خیز
تازہ فکری کا کوئی خطّ ِ ا٘فق بنتی نہیں
(عزیز حامد مدنی، ’’گواہ‘‘ فنون سالنامہ جولائی ۱۹۹۰ء )

مونولاگ تمّت شد
سیدانورجاویدہاشمی،کراچی۔۔۔آغاز ۱۹۹۱ ء تا ۲۰۰۹ء تکمیل شد
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ محمود صاحب شیئر کرنے کیلیے!

اور تصحیح کا عمل جاری رکھیئے، ابھی اس میں کافی 'ڈبے' بھی نظر آ رہے ہیں!
 

مغزل

محفلین
بہت بہت شکریہ صاحبان ، غیر حاضری کے بعد یہ کام انجام کو پہچنا ، کلام تدوین کردیا گیا ہے ، ہاں اگر کہیں ڈبے ڈبے نظر آرہے تو اس میں فونٹ کا مسئلہ ہوسکتا ہے میرے پاس ’’ ڈوئی ‘‘ اور ’’ مصرع‘‘ کی علامتیں بھی نظر آرہیں ہیں یقینا کچھ احباب کے ہاں ایسا ممکن ہوگا ۔ آپ کی رائے صاحبِ‌ کلام کے لیے عزت افزائی کی موجب ہوگی ، امید ہے انتظار کی زحمت پر آپ ہمیں‌معاف کیجے گا۔ والسلام
 

الف عین

لائبریرین
’پیش‘ کی جگہ کوئی اور علامت دی گئی ہے اس میں۔۔ اور پیش بھی اس جگہ پر نہیں ہے جہاں ہونا چاہئے۔ کُہنہ‘ میں کاف کے بعد پیش لگتا ہے اور اس کے بعد ’ہ‘ ٹائپ ہونی چاہئے۔
محمود تم تو ایک اور غلطی بھی ہمیشہ کرتے ہو، ’ۂ‘ کے استعمال میں۔ بہت سے الفاظ جس میں ۂ آنا چاہئے تم اسے ’ہَ‘ (ہ زیر( سے لکھتے ہو، جیسے عقدۂ ناکشا‘ کو ’عقدہِ ناکشا‘، وغیرہ
 

مغزل

محفلین
شکریہ بابا جانی ،۔ ’ۂ‘ ( یہ کاپی کیا ہے) دراصل مجھے کی بورڈ میں اس کا بٹن نہیں معلوم ، سو ہمیشہ یہ غلطی ہوتی ہے ، میں تسلیم کرتا ہوں، کلام مجھےان پیج فارمیٹ میں ملا تھا اتنی تفصیل سے جانتا نہیں وگرنہ زحمت نہ دیتا ، امید ہے آپ رہنمائی فرمائیں میں انشا اللہ آئندہ خیال رکھوں گا، والسلام
 

الف عین

لائبریرین
کون سا کی بورڈ استعمال کرتے ہو محمود۔ ہمزہ ہ اردو دوست میں یہ آلٹ جی آر او o پر ہے، کرلپ میں سرے سے ہے ہی نہیں، اسی لیے میں کرلپ کا اکثر کنڈیم کرتا ہوں، اردو پیڈ میں سنا ہے کہ کنٹرول آلٹ او پر ہے، لیکن یہ بھی صرف اکسپلورر میں کام کرتا ہوں، اس وقت میں گوگل کروم استعمال کر رہا ہوں، اس میں بھی کام نہیں کرتا۔
 

مغزل

محفلین
بابا جانی محفل کا کی بورڈ ہی استعمال کرتا ہوں باقی تیکنیکی معاملات میں‌،کور اہوں ، سمجھ نہیں‌سکا
 

الف عین

لائبریرین
پیش یہاں شفٹ او پر ہے اور ۂ یہاں کنٹرول آلٹ او پر۔ تم تو اکسپلورر ہی استعمال کرتے ہو اس لئےیہی کارآمد ہوگا۔
لیکن بہتر ہے کہ تم کوئی اچھا کی بورڈ انسٹال کر لو تاکہ ہر جگہ اردو لکھ سکو۔
ایک اور بات۔ تمہاری تحریر میں اکثر ایک سپیس کے بعد زیر دیا ہوتا ہے۔ یہ بھی غلط ہے۔ تمھارے ٹائپ کئے ہوئے میں اس قسم کی کافی غلطیاں ٹھیک کرنی پڑتی ہیں۔
 

مغزل

محفلین
شکریہ بابا جانی میں‌خیال رکھوں گا۔ تاویل تو پیش کی جاسکتی ہے ۔ مگر ۔۔
 

الف عین

لائبریرین
میں نے ہی کاپی پیسٹ کر کے داکیومینٹ بنا لیا ہے۔ تصحیح کے بعد یہاں ہی پوسٹ کرتا ہوں۔ اور ’سمت‘ کے لئے بھی محفوظ کر لیتا ہوں۔ اگلے شمارے کے لئے۔
 
Top