loneliness4ever
محفلین
مونگ پھلی
س ن مخمور
آپ مت پوچھیں مونگ پھلی مجھے کس قدر پسند ہے، نہ چلغوزے نہ بادم نہ پستے اور نہ اخروٹ بس بچپن سے چھپن تک کے سفر میں خشک میوہ جات میں جس کو رغبت سے کھایا وہ مونگ پھلی ہی ہے اور بچپن میں تو مونگ پھلی کا لباس اتارنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتا تھا اور چب چب ایسے ہی مونگ پھلی چبا لیتا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ یہ تہذیب سیکھی کہ ایسا پھل چھلکا اتارنے کے بعد کھایا جاتا ہے، اور یہ چھلکا اتارنے کی عادت آج گلے میں آگئی کہ اب تن سے لباس اترنے کے خوف میں ہر گھڑی مبتلا رہتا ہوں۔ کیا کریں صاحب زبان پر سچ و ادب کا لبا س تھا وہ وقت کے ساتھ اتار دیا، ذہن و روح پر ایمان کا لباس تھا وہ کسی نے تو اتار دیا اور کسی نے تار تا ر کر دیا ، کچھ آج بھی روح و ذہن کو اس لباس سے آزاد نہ کر پائے۔ ان کی ناکامی کا سبب مکمل طور سے ان کے والدین رہے جنہوں نے اقدار کی تاروں کی بدولت اس مضبوطی سے یہ لباس ان کی ہڈیوں تک سے جوڑ دیا کہ اب مر قد میں خاک بھی یہ لباس نہ اتار پائے گی۔اور کسی نے نگاہ پر حیا کی ردا بھی اتار پھیکی، غرض میں بھی آج اپنے آپ کو ہر لباس سے آزاد کرچکا ہوں اور اب کبھی آئینے میں اپنا سراپادیکھتا ہوں تو دل الٹنے لگتا ہے، بدن پر کہیں جدید تہذیب کی سبز کائی نظر آتی ہے تو کہیںحرص و ہوس سے بنے نقش و نگار جن کی کسی لڑی سے بے حیائی تو کسی لڑی سے ناحق لہو بوند بوند ٹپک رہا ہوتا ہے ، اور کہیں بدن کا کوئی حصہ انتہا پسندی کی آگ میں جھلسا نظر آتا ہے۔ اپنی یہ حالت دیکھ کر سوچتا ہوں کاش میں کبھی زبان، دل و روح ، نظر و ذہن کا لباس نہیں اتارتا اور اپنے سراپے کو بنا ڈھال کہ زمانے کی بے رحم ہوائوں میں کٹی پتنگ کی مانند نشاط کی آرزو کے سپرد نہیں کرتا تو آج میرا سراپا دیکھنے کے قابل ہوتا مجھے اپنے آپ کو دیکھ کوکر کبھی گھن نہیں آتی مگر اب کیا فائدہ؟؟؟ آج اپنا من پسند خشک میوہ کھائے پورے تین سال ہو چکے ہیں کل اگر مونگ پھلی کالباس اتارنے کی صحیح بات کو صرف اس ہی زاویے تک محدودرکھتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا میں اپنی روح، نظر ، دل کو ہمیشہ لباس سے ڈھکا پاتا، مگر ہائے میری بری عادت اور کم عقلی کے مونگ پھلی کھانے کے سلیقے کو اپنی زندگی کے ہر رخ پرلاگو کردیااور ہوس و حرص کا نتیجہ یہ رہا کہ مٹھی بھر بھر کر مونگ پھلی کھانے والا ایک دانہ مونگ پھلی تین سال ہونے کو آرہے ہیں اپنے منہ میں نہیں ڈال سکا۔ ہر سال مونگ پھلی کھانے کو عیاشی تصور کر کے ریڑھی والے سے نظریں چرا کر نکل جاتا ہوں ویسے ہی جیسے جمعہ کی اذان کے وقت کانوں کو بہرہ کر کے مسجد کے برابر سے نکل جاتا ہوںاور اب مونگ پھلی کا ذائقہ بھی زبان بھلاتی جا رہی ہے جیسے پانچ وقت کی نماز کا سرور اور لطف جسم و روح بھلا چکے ہیں مختصر یہ کہ کسی سے کیا گلہ یہ تمام حال اپنے ہی ہاتھوں ہوا ہےجس طرح مونگ پھلی کو ترس گیا ہوں اس ہی طرح زندہ ہوکر بھی زندگی کو ترس گیا ہوں اور جیسےتین سال سے مونگ پھلی کو دیکھ کر ہی دل کو دلاسہ دیتا ہوں کہ اگلے سال خوب مونگ پھلی کھائوں گا بس ذرا بچت کر لوں ویسے ہی ہر فائل کو آگے پاس کرتے ہوئےنادان دل کو تھپکی دے کر سلا دیتا ہوں کہ اگلی بار فائل پاس کرنے کے لئے کوئی نذرانہ نہیں لونگا یا جیسےہر آج پر دل کو تسلی دیتا ہوں کہ کل سےنماز پڑھوں گااور یوں دل کو بہلالیتاہوں اور بالکل ایسے ہی یہ تحریر لکھ کر دل کوبہلارہاہوں اور اپنا فرض پورا کر رہا ہوں۔
س ن مخمور
آپ مت پوچھیں مونگ پھلی مجھے کس قدر پسند ہے، نہ چلغوزے نہ بادم نہ پستے اور نہ اخروٹ بس بچپن سے چھپن تک کے سفر میں خشک میوہ جات میں جس کو رغبت سے کھایا وہ مونگ پھلی ہی ہے اور بچپن میں تو مونگ پھلی کا لباس اتارنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتا تھا اور چب چب ایسے ہی مونگ پھلی چبا لیتا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ یہ تہذیب سیکھی کہ ایسا پھل چھلکا اتارنے کے بعد کھایا جاتا ہے، اور یہ چھلکا اتارنے کی عادت آج گلے میں آگئی کہ اب تن سے لباس اترنے کے خوف میں ہر گھڑی مبتلا رہتا ہوں۔ کیا کریں صاحب زبان پر سچ و ادب کا لبا س تھا وہ وقت کے ساتھ اتار دیا، ذہن و روح پر ایمان کا لباس تھا وہ کسی نے تو اتار دیا اور کسی نے تار تا ر کر دیا ، کچھ آج بھی روح و ذہن کو اس لباس سے آزاد نہ کر پائے۔ ان کی ناکامی کا سبب مکمل طور سے ان کے والدین رہے جنہوں نے اقدار کی تاروں کی بدولت اس مضبوطی سے یہ لباس ان کی ہڈیوں تک سے جوڑ دیا کہ اب مر قد میں خاک بھی یہ لباس نہ اتار پائے گی۔اور کسی نے نگاہ پر حیا کی ردا بھی اتار پھیکی، غرض میں بھی آج اپنے آپ کو ہر لباس سے آزاد کرچکا ہوں اور اب کبھی آئینے میں اپنا سراپادیکھتا ہوں تو دل الٹنے لگتا ہے، بدن پر کہیں جدید تہذیب کی سبز کائی نظر آتی ہے تو کہیںحرص و ہوس سے بنے نقش و نگار جن کی کسی لڑی سے بے حیائی تو کسی لڑی سے ناحق لہو بوند بوند ٹپک رہا ہوتا ہے ، اور کہیں بدن کا کوئی حصہ انتہا پسندی کی آگ میں جھلسا نظر آتا ہے۔ اپنی یہ حالت دیکھ کر سوچتا ہوں کاش میں کبھی زبان، دل و روح ، نظر و ذہن کا لباس نہیں اتارتا اور اپنے سراپے کو بنا ڈھال کہ زمانے کی بے رحم ہوائوں میں کٹی پتنگ کی مانند نشاط کی آرزو کے سپرد نہیں کرتا تو آج میرا سراپا دیکھنے کے قابل ہوتا مجھے اپنے آپ کو دیکھ کوکر کبھی گھن نہیں آتی مگر اب کیا فائدہ؟؟؟ آج اپنا من پسند خشک میوہ کھائے پورے تین سال ہو چکے ہیں کل اگر مونگ پھلی کالباس اتارنے کی صحیح بات کو صرف اس ہی زاویے تک محدودرکھتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا میں اپنی روح، نظر ، دل کو ہمیشہ لباس سے ڈھکا پاتا، مگر ہائے میری بری عادت اور کم عقلی کے مونگ پھلی کھانے کے سلیقے کو اپنی زندگی کے ہر رخ پرلاگو کردیااور ہوس و حرص کا نتیجہ یہ رہا کہ مٹھی بھر بھر کر مونگ پھلی کھانے والا ایک دانہ مونگ پھلی تین سال ہونے کو آرہے ہیں اپنے منہ میں نہیں ڈال سکا۔ ہر سال مونگ پھلی کھانے کو عیاشی تصور کر کے ریڑھی والے سے نظریں چرا کر نکل جاتا ہوں ویسے ہی جیسے جمعہ کی اذان کے وقت کانوں کو بہرہ کر کے مسجد کے برابر سے نکل جاتا ہوںاور اب مونگ پھلی کا ذائقہ بھی زبان بھلاتی جا رہی ہے جیسے پانچ وقت کی نماز کا سرور اور لطف جسم و روح بھلا چکے ہیں مختصر یہ کہ کسی سے کیا گلہ یہ تمام حال اپنے ہی ہاتھوں ہوا ہےجس طرح مونگ پھلی کو ترس گیا ہوں اس ہی طرح زندہ ہوکر بھی زندگی کو ترس گیا ہوں اور جیسےتین سال سے مونگ پھلی کو دیکھ کر ہی دل کو دلاسہ دیتا ہوں کہ اگلے سال خوب مونگ پھلی کھائوں گا بس ذرا بچت کر لوں ویسے ہی ہر فائل کو آگے پاس کرتے ہوئےنادان دل کو تھپکی دے کر سلا دیتا ہوں کہ اگلی بار فائل پاس کرنے کے لئے کوئی نذرانہ نہیں لونگا یا جیسےہر آج پر دل کو تسلی دیتا ہوں کہ کل سےنماز پڑھوں گااور یوں دل کو بہلالیتاہوں اور بالکل ایسے ہی یہ تحریر لکھ کر دل کوبہلارہاہوں اور اپنا فرض پورا کر رہا ہوں۔