justuju
محفلین
موٹرسائیکلیات ۔۔ ایک نیاپاکستانی طرزِزندگی
ربع صدی تک صحرائے عرب کی خاک چھاننے، لبنان اور ایران کی سطح مرتفع اور امارات اور بحرین کے جزائر اور ساحلی علاقوں میں گھومنے، اور امریکہ یاترا کے بعد پاکستان واپس آئے تو یہاں کئی انوکھی نئی اشیاءاور روّیے دیکھنے کوملے۔ ان اشیاءمیں سے ایک دل چسپ چیزایک ایسی سواری ہے، جس کا تفصیلی تعارّف ضروری ہے۔دنیا کے ہر ملک میں شاہراہوں پر چلنے اوردوسروں کا خیال رکھنے کے قوانین موجود ہیں۔ اسی طرح کے چندجنگل کے قوانین پاکستانیوں نے بھی بنا رکھے ہیں۔ ان پر عمل درآمد کس طرح ہوتاہے، اس کا مشاہدہ اور مطالعہ بھی ایک خاصے کی چیز ہے۔
یہ سواری ایک چھوٹے سے ٹٹو کے مشابہہ ہے، اور یہ ایک مشین ہے، جو یقینا پیٹرول سے ہی چلتی ہے۔ اچانک پیٹرول ختم ہونے پر اسے بائیں سمت لٹا دیا جائے تو یہ پھر چلنے کے قابل ہوجاتی ہے۔دروغ برگردنِ راوی، اس سلسلہ میں یہ سننے میں آیا کہ امریکی خلائی ادارہ، ناسا، کا ایک مشن بار بار ناکام ہورہا تھا۔ ان کا راکٹ اسٹارٹ ہی نہیں ہوتاتھا، اور تمام امریکی سائنسدان اور دانش ور اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہے۔ اس وقت ایک پاکستانی جو یہ تمام مناظر اور جدوجہد دیکھ کر لطف اندوز ہورہا تھا، اس نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی ایک تجویز پیش کی۔ ناسا، جو اس بارے میں سر لڑالڑاکر تھک چکاتھا، اس نے وہ تجویز منظورکرلی۔ راکٹ کو جھکاکرلٹادیا گیا۔ پھر نتیجہ تو آپ کو معلوم ہی ہے۔ امریکی سائنسدان پہلی مرتبہ چاند پر اترنے میں کامیاب ہوئے۔
اسے مقامی باشندے ”موٹرسائیکل“ کا نام دیتے ہیں۔ تاہم اس پر سوار پانچ چھ افراد کو بغوردیکھنے سے یہ محسوس ہوتاہے کہ یہ اصل میں ایک کار رہی ہوگی، جس کا بیرونی ڈھانچہ نکال کر، اس کے دو عدد پہیّے بھی علیحدہ کردیے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ کار پاکستان کے گرم موسم میں بلا کسی اضافی خرچ کے ایئرکنڈیشنڈہوجاتی ہے، اور ایندھن کی بچت بھی ہوتی ہے۔
یہ ہوادار سواری چلانے والاقانونی طورپر اس امر کا پابند ہے کہ وہ ایک حفاظتی خود، ہیلمٹ، پہنے ۔ مگر اس کے ساتھ بیٹھنے والے بقیہ افرادکے لیے ایساخودپہنناضروری نہیں۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ پاکستانیوں نے یہ ایک ایسی سواری ایجاد کرلی ہے، جس پر بیٹھنے والا ہر بلاو حادثہ سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ تاہم حیرت ناک طور پر ابھی تک یہ ایجاد اس سواری کے چلانے والے کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے۔ اسی لیئے یہاں کی ٹریفک پولیس اس کاچالان کرنے کی پابند بنادی گئی ہے۔ تاہم، اگر ڈرائیور نے یہ حفاظتی خود نہ پہنا ہو تو بھی اس کی بچت ہوجاتی ہے، اگر وہ بانی ءپاکستان کی تصویر کا سہارا لے لے ۔ بعینہ، اگر کوئی پولس والا بھی اس پر سوار ہو تو اسے ہیلمٹ کی ضرورت نہیں رہتی؛ موٹرسائیکل اپنے سوار کی اکڑفوں سے ہی یہ جان لیتی ہے کہ اس پر کوئی پولیسیا سفر کررہا ہے، اور اسے ہر حادثہ سے محفوظ رکھنا ہے۔
پاکستانیوں کی زندگی میں قائد اعظم کا سہارا بہت اہمیت رکھتا ہے، اور اس کے بغیر وہ اپنی زندگی گزارنا پسند ہی نہیں کرتے۔ اس سے پاکستانیوں کا ان سے ازحد محبت کا اظہار ہوتاہے۔ یہ امر باقی دنیا کے لیے بھی قابلِ تقلید ہے، تاہم دیگر ممالک میں سے اکثر اس عمل کی افادیت کے بارے میں معلومات صفر کے برابر ہونے کے باعث وہ لوگ اسے ابھی تک قابلِ تحسین نہیں سمجھتے۔ مگر پاکستانی اس حقیقت سے مایوس نہیں، اور سنا گیا ہے کہ وہ اسی تصویر کے سہارے اپنے اس تصوّرکے بل بوتہ پرساری کائنات کو تسخیرکرلینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم، قائد اعظم بھی اپنی ان خدمات کو بلا معاوضہ نہیں پیش کرتے؛ ان کے عالی شان مزار پر بھوُلے بھٹکے آنکلنے والوں سے فیس وصول کرکے اس امراور تکلیف کی تلافی کردی جاتی ہے، اور بقول ایک پاکستانی کے،ان کا ”ہرجہ، مرجہ“ اس طرح نکل ہی آتاہے۔
اس سواری پرتین بالغ افراد، یا میاں، بیوی اور ان کے تمام بچّے سفرکرلیتے ہیں۔ اکثر ڈرائیور حضرات ایسے دیکھے جاتے ہیں جن کے ساتھ سفر کرلینے والی خواتین اپناایک ہی پیر بمشکل اس سواری میں لگے پائیدان پر رکھ سکتی ہیں۔ اس طرح طویل سفر میں ایک پائوں سُن ہوجانے سے ان کی تکلیف کم ہوکر آدھی ہی رہ جاتی ہے، اگرچہ کبھی کبھی ایسی خواتین کے پیر کسی فٹ پاتھ وغیرہ سے ٹکرا جاتے ہیں، اور ان کی چپلیں بھی گرجاتی ہیں۔ اس کے باوجود، یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ نادان سوار ایسا پائیدان بھی لگالیتے ہیں، جس پر خواتین دونوں پیر بھی رکھ سکتی ہیں؛ یقینا ایسے ڈرائیور اپنی ساتھی مسافر خواتین کے ہمدرد نہیں۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں سڑکوں پر موٹرسائیکل چلانے کے لئے جگہ نہیں بچی ہے۔ چنانچہ، دیگر تمام گاڑیاں، جن میں کاریں، بسیں، ٹرک وغیرہ شامل ہیں، ان کے ساتھ ایک ایسے کھیل میں مصروف رہتے ہیں، جسے کسی سرکس کے موت کے کنویں سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس کھیل میں موٹرسائیکل سوار کو خود ہی بچ بچ کر دوڑنا ہوتا ہے، اور بچ کر نکل جانا ہی اس کی جیت قرار پاتی ہے۔ تاہم، اس خونی کھیل میں اکثر جیت دوسروں کی ہوتی ہے، اور یہاں کے اخبارات روز ہی ایسی جیت کی خبریں شائع کرتے رہتے ہیں۔ اس کھیل سے لطف اندوز ہونے کے لیے آپ خود کسی موٹرسائیکل پر سوار نہ ہوں، تب ہی آپ اس ہار ، جیت کا تماشہ اپنی زندگی میں دیکھ سکتے ہیں۔
جب موٹرسائیکل پر دو بالغ سوار ہوں تو پیچھے بیٹھنے والا اپنی قمیص کے پچھلے حصّہ کو موٹرسائیکل کی پشتی روشنی، اور موٹرسائیکل کی نمبر پلیٹ پر ڈال دیتاہے۔ سنا گیا ہے کہ اس سے سواروں کی شناخت نہ ہونے سے ان کی عزّت برقرار رہتی ہے، اور اس طرح رات میں دیگر گاڑیاں بھی انھیں صحیح طرح نہیں دیکھ پاتیں، اور اس طرح اس کھیل کا مزا دوبالا ہوجاتاہے۔
اسی کھیل میں مخالف سمت سے آکر ڈرادینا ایک نہایت ہی مزے دار چال سمجھی جاتی ہے۔ یہ سواری چلاتے ہوئے اس امر کو یقینی بنالیا جاتاہے کہ پیچھے سے آنے والی تیزرفتار ٹریفک قطعی نظر نہ آئے۔ اس مقصد کے لیے عقبی آئینے نکال دیے جاتے ہیں؛ جو نادان موٹرسائیکل سوار ایسا نہیں کرتے، ان کی مدد کے لیے دوسرے افراد آگے بڑھ چڑھ کر آجاتے ہیں، اور سوار کی نظر بچاکر اپنا کام کرجاتے ہیں۔ تاہم یہ رضاکارانہ مدد سواروں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، جس کا سبب ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ یہ ہی رضاکار بسا اوقات، شاید یہ سوچ کر کہ موٹرسائیکل سوار کی جان کسی حادثہ میں ضائع نہ ہوجائے، اس سے موٹرسائیکل لے کر اسے پیدل ہی گھر بھیج دیتے ہیں۔ جو احمق سوار اپنی جان سے کھیلنے سے باز نہیں آتے، اور ان رضاکاروں کواس نیک کام سے روکتے ہیں، وہ اپنے من کی مراد پاتے ہیں، اور ان رضاکاروں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ کچھ دانش ور ایسا بھی کہتے پائے گئے کہ موبائل فون، اور موٹرسائیکل، پاکستانی ڈاکوﺅں کی امانتیں ہیں، جب تک آپ کا بس چلے انھیں جلد از جلد استعمال کرلیں، ورنہ وہ اپنی امانت کسی بھی وقت، بے وقت، لے کر چلتے بنیں گے۔
موٹرسائیکل سواروں کے ساتھ آنکھ مچولی کا ایک اور کھیل بھی کھیلا جاتاہے۔ اس کھیل میں دوسرا کھلاڑی پولیس کے تعیّن کردہ چندافراد ہوتے ہیں۔ یہ ایک چھوٹے سے ٹرک کی مدد سے کسی بھی جگہ کھڑی کی گئی موٹرسائیکلوں کو غائب کردیتے ہیں۔ مالکان، اور دیگر کھلاڑی بھی ان غائب کردہ موٹرسائیکلوں کو دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں، یہاں تک کہ انھیں اٹھاتے ہوئے، کسی قسم کی فہرست نہیں بنائی جاتی؛ ایسا اس لیے کیا جاتاہے کہ نیک کام میں کسی قسم کی تاخیر نہ ہو۔
کسی بھی جادوئی مدد کی حاجت پر پاکستانی ایسی صورت میں بانی ءپاکستان کی جانب مدد کے لیے دیکھتے ہیں، اور وہ ہمہ وقت مدد کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ تاہم، جیسا کہ ہم نے آپ کو پہلے بھی بتایا ہے کہ، چونکہ بانی ءپاکستان انتقال کرچکے ہیں، پاکستانیوں نے ان کی تصاویر کرنسی نوٹوں پر چھاپ لی ہیں، اور ہر پاکستانی اس کی پوجا کرنا اپنا فرضِ عین سمجھتا ہے۔ چنانچہ، یہ تصاویر مالکان اپنی جیب سے نکال کر ایک جادوئی تعویذ کی مانند دیوانہ وار ہر طرف گھماتے ہیں، یہاں تک کہ ان کی موٹرسائیکل پردہ ءغیب سے نمودار ہوجاتی ہے، اور وہ اس پر سوار ہوکر، ایک مرتبہ پھر میدانِ جنگ کی جانب چل پڑتے ہیں۔ مگر اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بجائے اس کے کہ یہ سواریاں مالکان کے سامنے نمودار ہوں، یہ پولیس والوں کے گھروں میں اچانک کود پڑتی ہیں، اور وہ اسے مالِ غنیمت اور غیبی مددکی طرح ساری زندگی استعمال کرتے ہیں۔ اس کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کی نمبر پلیٹیں یا تو غائب ہوتی ہیں، کسی گرگٹ کی طرح وہ اپنا رنگ تبدیل کرچکی ہوتی ہیں، یا ان کی مالکانہ حقوق کی کتابیں ندارد یا جعلی ہوتی ہیں۔ تاہم، باحیاٹریفک پولیس شرمندگی سے بچنے کے لیئے اپنے پیٹی بھائیوں سے چشم پوشی کرتی ہے۔
موٹرسائیکل سواروں کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل کھیلنے کے لیئے ٹریفک پولیس کے اہل کار دن دھاڑے سب کے سامنے موسم کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے موجود رہتے ہیں۔ اس کھیل کے اصولوں کے مطابق ان کا صرف اپنی وردی پہن کر کہیں بھی کھڑا ہوجاناکافی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ اس وقت ڈیوٹی پر بھی ہوں، اور اپنے متعین کردہ علاقہ ہی میں موجود ہوں۔ در اصل کسی بھی دیگر بین الاقوامی کھیل کی طرح، وہ مشق کرنے کے لیے دیگر علاقوں میں جاکر دوسری ٹیموں کے ساتھ غائبانہ میچ کھیلنا پسند کرتے ہیں۔
اگر پولیس کے روکنے پر سواری نہ رکے، تو اس پاکستانی کھیل کے انتہائی اصولوں میں اس خلاف ورزی کی سزا پولیس کی گولی مقررکی گئی ہے۔ پولیس ایسے مواقع پر اپنے نشانہ کی مشق بھی کرلیتی ہے، کیونکہ انہیں تربیت کے دیگر مواقع میسّر نہیں۔ تمام موٹرسائیکل سوار اس خطرہ کا مقابلہ کرکے اپنے دورانِ خون کو تیز کرتے، اور اس سے ایک نشہ کی طرح مزا لیتے ہیں۔ موٹرسائیکل روکتے ہی، وہ اپنا ہاتھ اپنی جیب میں ڈال کر نکالتے، پولیس کا شکریہ ادا کرکے ہاتھ ملاتے، اور دوبارہ فرّاٹے بھرتے نظرآتے ہیں۔ ہم نے ایسے مواقع پر موٹرسائیکل کے جانے کے فوراً بعد، پولیس والوں کو کسی بندر کی طرح سواروں کی نقل میں اپنا ہاتھ بھی جیب میں ڈال کر نکالتے دیکھا۔ مگر سواروں کے مقابلہِ میں ان کا ہاتھ جیب سے نکلنے پر خالی نظر آیا، جب کہ سواروں کی پچکی جیبوں کے مقابلہ میں ان کی جیبیں خاصی فربہ نظرآتی ہیں۔ شاید یہ موٹاپا ان پولیس اہل کاروں کی ایمانداری کا کوئی فوری انعام ہوتا ہے، کیونکہ ان کے ہاتھوں میں موجود چالان کی کتابوں کے سرورق پر ہم نے یہ لکھا دیکھا: ” میں ایک ایماندار آفیسر ہوں"۔
اگر کسی وقت کہیں دھماکہ وغیرہ ہوجائے تو اس سواری پر ایک سوار سے زیادہ افراد کے بیٹھنے پر پابندی لگادی جاتی ہے۔ تاہم، وہ سوار برقعہ میں کسی کو بھی بٹھا کر لے جاسکتا ہے، اس کے لئے مرد یا عورت کی کوئی قید نہیں۔ اور اسی طرح وہ دیگر بچوں کو بھی سیر کراسکتا ہے۔ یہ سواری پاکستانی چوروں اور ڈاکوﺅں میں بھی خاصی مقبول ہے، جس کی وجوہات ٹریفک کا وہ ازدحام ہے، جو کاروں کو اکژجام کردیتاہے۔
چند ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے جن میں خواتین کو موٹرسائیکل پر جسمانی ورزش کے لیے بھی بٹھایا جاتاہے۔ اس صورت میں سیٹ کے پیچھے کسی بھی قسم کی روک اور پشت کو نکال دیا جاتاہے، اور ان کے دوپٹے، برقعے، شلواریں پچھلے پہیے میں پھنساکر، کسی بھی گڑھے یا ناہموار سڑک پر موٹرسائیکل کو فرّاٹے بھرتے ہوئے چلایا جاتاہے۔ اس کے نتیجہ میں خاتون کسی سرکس کے کرتب کی نقالی کرتی، موٹر سائیکل سے ایک چھلانگ لگاکر سڑک پر قلابازیاں کھاتی ہے، اور اس طرح نہ صرف اس کی جسمانی ورزش ہوجاتی ہے، بلکہ ضرورت پڑنے پر اس مستحسن طریقہ سے نہ صرف مطلوبہ تشددبڑی عمدگی سے کیا جاسکتاہے بلکہ ناپسندیدہ و غیرضروری عزیزاﺅں سے چھٹکارہ بھی پایاجاسکتا ہے۔
پاکستان کے کچھ علاقوں میں موٹرسائیکلوں پر ریس لگانے کا رواج ہے، خاص طور پر ساحل سمندر پر۔ اور جہاں سمندر موجود نہیں وہاں غیر تربیت یافتہ نوجوان افراد اسے ایک پہیے پر چلانے کی کوشش میں جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ جس سے ملک میں بے روزگاری کی شرح میں کچھ نہ کچھ کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کچھ علاقوں میں موٹرسائیکل سواروں کے ساتھ پتنگ کے پیچ بھی لڑائے جاتے ہیں، جس میں ایک طرف پتنگ، جب کہ دوسری طرف گردن اس پیچ میں پڑتی ہے، اور دونوں میں سے کوئی ایک مزے سے کٹ جاتی ہے، جس پر یہ نعرہ ءمستانہ لگایا جاتاہے، بوکاٹا !۔
یہ موٹرسائیکلیں مختلف ناموں اور اعلانات کے ساتھ بیچی جاتی ہیں۔ ہمیں سب سے زیادہ یہ اعلان اچھا لگتاہے:۔
”شیر کی دُم، شیر کا انداز“
تاہم کچھ لاعلم حضرات نے ہماری توجہ دلائی کہ شاید یہ لفظ ”شیر کا دَم“ ہے۔ مگر ہمارا خیال ہے کہ یہ معاملہ فکرانگیزی کاتقاضہ کرتا ہے، اور جو مزا شیر کی دُم کہنے میں ہے، وہ شیرکا دَم کہنے میں کہاں !۔
*