موچی دروازہ
لاہور کی قدیم ترین جلسہ گاہوں میں سے ایک ’’موچی دروازہ‘‘ بھی ہے۔ جو سیاسی حوالے سے ملکی تاریخ کا اہم باب بن گیا ہے۔ قیام پاکستان سے جمہوریت کی بقا تک کئی اہم بڑے جلسوں اور تحریکوں کا چشم دید گواہا رہا ہے۔ اس لیے جمہوری ادوار میں سیاست دانوں کے عظیم الشان جلسے اور سیاسی احتجاج کی بڑی بڑی تحریکیں یہیں سے جنم لیتی رہی ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا، بالکل ایسے ہی یہ کہا جاتا ہے کہ جس سیاسی جماعت نے موچی باغ میں جلسہ نہیں کیا گویا اس نے سیاست میں قدم ہی نہیں رکھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہر سیاست داں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک بار یہاں جلسہ ضرور کرے۔ اگر اس کا جلسہ کامیاب ہوگیا تو وہ دیگر جماعتوں پر دھاگ بٹھانے میں کامیاب ہو گیا، بصورت دیگر اسے اور اس کی جماعت کو سخت محنت کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 80ء کی دہائی تک اگر کسی بھی سیاست دان کی عوامی مقبولیت کا اندازہ لگانا ہو تو موچی باغ میں عوامی مجمع کو دیکھ کر بہ خوبی لگایا جاتا۔ المختصر اس تاریخی میدان میں برصغیر پاک و ہند کے نامور سیاستدانوں اور رہنماؤں نے خطاب کیا۔ جن میں علامہ اقبال، قائداعظم محمد علی جناح، جواہر لال نہرو، خان عبد الغفار خان، حسین شہید سہروردی ، لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، شہباز شریف سمیت کئی اہم سیاست داں شامل ہیں۔
اس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ، اس کا قدیم نام ’’موتی دروازہ‘‘ تھا۔ کنہیا لال ’’تاریخ لاہور‘‘ میں موچی دروازے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ، ’’یہ دورازہ اکبری عہد میں اکبر بادشاہ کے ملازم ’’موتی رام جمعدار‘‘ کے نام سے موسوم تھا، جو تاحیات اس دروازے کی حفاظت پرمعمور رہا۔ اس دور میں جب بیرونی حملہ آوروں نے لاہور کا رخ کیا، تو اس نے جان کی پروا نہ کرتے ہوئے شہر کی حفاظت کی، اپنی حکمت عملی اور ذہانت کی بدولت حملہ آوروں کو دروازے سے داخل نہ ہونے دیا، اس کی ان ہی خدمات کو سرہاتے ہوئے دروازے کا نام اس کے نام سے منسوب کردیا گیا‘‘۔ لیکن سکھوں کے دور میں اس دروازے کا نام موتی سے بگڑ کر موچی مشہور ہو گیا۔ جس کی ایک بنیادی وجہ مورخین کے مطابق، اس اندرون موچی دروازے میں ’مورچیوں‘ کا قیام بتائی جاتی ہے۔ جب سے اب تک یہ دروازہ موچی دروازے کے نام سے ہی پہچانا جاتا ہے۔
صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی یہ دروازہ سیاسی اہمیت کا حامل ہے اور ملکی سیاسی تاریخ کا اہم مرکز تصّور کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ، جلسے کی کامیابی میں جگہ کا انتخاب بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ موچی دروازے کا نام سنتے ہی سب سے پہلے جس جلسے کا منظر نامہ ذہن میں آتا ہے، وہ 1965ء میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ایوب خاں کے خلاف ہونے والا جلسہ ہے۔ جس میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی تھی۔ جن میں بیشتر افراد مادر ملت کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیے دور دور سے آئے تھے۔ اس لیے انتخابی جلسے میں اسٹیج روایت سے ہٹ کر پولیس چوکی، موچی گیٹ کے عقب کی بجائے مسجد کے سامنے بڑے بوڑھ کے درخت کے نیچے بنایا گیا تھا، تاکہ دونوں اطراف سے لوگ مادر ملت کو دیکھ سکیں۔ اس جلسے کی صدارت کے فرائض معروف سیاست داں میاں ممتاز دولتانہ نے انجام دیئے تھے، جب کہ سردار ظفراللہ ایڈووکیٹ اسٹیج سیکریٹری تھے۔
اسی موچی دروازہ میں مولانا مودودی نے خرابی صحت کے باعث جماعت اسلامی کی امارت سے دستبرداری کا عندیہ دیا۔ لاہور میں ’’تحریک استقلال‘‘ کے ابتدائی جلسوں میں سب سے بڑا جلسہ بھی اسی موچی دروازہ میں ہوا، جس میں پیپلز پارٹی سے دوبدو جنگ کی سی کیفیت رہی۔ جلسے کے بعد تحریک استقلال ایک بڑی پارٹی کے طو ر پرانتہائی تیزی سے ابھری۔
سابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے کے باوجود لاہور کے عوام میں بے حد مقبول ہونے والے رہنماؤں میں حسین شہید سہروردی کے علاوہ شیخ مجیب الرحمٰن اور مولانا بھاشانی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے 1970ء میں موچی باغ میں بڑے اور کامیاب جلسے کیے۔ یہ ان جلسوں کا ہی نتیجہ تھا کہ اس حلقے سے 1970ء کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی جماعت نے بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کی۔ دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کو شکست کا سامنا ہوا۔
1971ء میں اقتدار سنبھالنے سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کے جلسوں میں لوگ دیوانہ وار شامل ہوتے تھے۔ اسی موچی دروازہ میں نواب اکبر بگٹی نے عوام سے وہ تاریخ ساز خطاب کیا، جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں بلوچستان کا گورنر مقرر کردیا۔
1993ء میں بے نظیر بھٹو نے یہاں جلسہ کیا تھا۔ بعدازاں وقت کی گرد نے گزشتہ کئی دہائیوں سے موچی باغ کو سیاسی منظر نامے سے اوجھل کردیا۔ آج اس کے گرد کار پارکنگ، میدان میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر اور دھوبیوں کے ناجائز قبضے ہیں۔ جس سے موچی گیٹ کا حسن مانند پڑ گیا ہے اور سیاسی جلسے بھی اب شاز و نادر ہی یہاں منعقد ہوتے ہیں۔
( جاری ہے )