مردوں والی بات
راشد بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ جب بھی گھڑی کی جانب دیکھتا، اس کی بیوہ ماں کی نگاہ بے اختیار گیٹ کی طرف اٹھ جاتی۔ آج راشدہ کو کالج میں خاصی دیر ہو گئی تھی اور جب تک وہ گھر نہ آ جاتی راشد کھانا کھانے سے انکار ہی کرتا رہتا۔ حالانکہ اسے اخبار کے دفتر جانے میں دیر ہو رہی تھی جہاں وہ بطور پروف ریڈر ملازم تھا۔ اس کی ماں بھی کئی بار دبے لفظوں میں اسے کھانا کھانے اور دفتر جانے کا کہہ چکی تھی مگر راشد کے شدت سے انکار کرنے پر وہ بھی خاموش ہو جاتی اور تشکر بھری نگاہوں سے بیٹے کا چہرہ تکنے لگتی۔ یہ تقریباً روز ہی کا معمول تھا۔
راشد گو راشدہ سے ایک برس چھوٹا تھا مگر ذہانت اور محنت میں راشدہ سے کسی طور کم نہ تھا اسی لئے والدین نے دونوں کو ایک ہی کلاس میں داخل کرانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ پڑھنے پڑھانے میں دونوں ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں میٹرک میں پہنچ گئے۔ اساتذہ کے مشورہ اور بچوں کے رحجانات کو دیکھتے ہوئے ان کے ابو نے انہیں سائنس گروپ میں داخلہ دلا دیا۔ خیال تھا کہ بیٹے کو آگے جا کر انجینئرنگ اور بیٹی کو میڈیکل میں داخلہ دلائیں گے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس روز میٹرک کا نتیجہ متوقع تھا جب راشد اور راشدہ کے ابو دفتر کے لئے گھر سے نکلنے لگے تو ان دونوں نے ایک بار پھر انہیںیاد دلایا کہ اخبار کا سپلیمنٹ نکلتے ہی وہ دفتر سے چھٹی لے کر گھر آ جائیں گے۔ اور انہوں نے بھی وعدہ کر لیا تھا کہ وہ صرف اخبار لے کر نہیں بلکہ مٹھائیوں کے ڈبے بھی لے کر آئیں گے۔ اور جب وہ حسب وعدہ اخبار کا سپلیمنٹ اور مٹھائی کے ڈبے لے کر خوشی خوشی تیز رفتاری سے اسکوٹر چلاتے ہوئے گھر لوٹ رہے تھے کہ اچانک سامنے آ جانے والے ایک بچے کو بچاتے ہوئے مخالف سمت سے آنے والے ایک تیز رفتار ٹرک سے ٹکرا گئے اور جائے حادثہ پر ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
غمزدہ مختصر سا خاندان سرکاری کوارٹر چھوڑ کر ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں شفٹ ہو گیا۔ راشد کے بے حد اصرار اور والد مرحوم کی خواہش کے مطابق راشدہ نے انٹر سائنس پری میڈیکل گروپ میں داخلہ لے لیا جبکہ راشد نے صبح ایک آرٹس کالج میں داخلہ لے کر شام کو ایک اخبار میں ملازمت کر لی۔ اب یہ روز کا معمول تھا کہ راشد کالج سے چھٹی ہوتے ہی گھر آ کر کھانے پر ماں کے ساتھ راشدہ کا انتظار کرتا کیونکہ پریکٹیکل کے باعث ہفتہ میں تین چار دن تاخیر سے گھر لوٹتی جب تک وہ گھر نہ لوٹ آتی راشد نہ تو کھانا کھاتا اور نہ دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلتا۔
آج بھی وہ راشدہ کے انتظار میں ماں کے ساتھ بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا، تاکہ ماں کی توجہ بھی بٹی رہے اور انتظار کے لمحات بھی با آسانی کٹ جائیں۔ "اماں ایسا لگتا ہے جیسے اس گھر میں ہم ہمیشہ تین ہی افراد رہیں گے" راشد نے پیار بھری نظروں سے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"ارے کیا منہ سے بدفال نکالتا ہے۔" ماں نے جھوٹ موٹ کی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ "جب میں تیرے لئے ایک چاند سی دلہن لے آؤں گی تو۔۔۔" راشد ماں کا فقرہ درمیان ہی سے اچکتے ہوئے بولا "اماں اس وقت تک باجی کی شادی بھی تو ہو جائے گی۔ اس گھر میں ہم تو پھر تین کے تین ہی رہیں گے ناں!" "ارے بیٹا تو کتنا بھولا ہے۔ دیکھ جب میرا پوتا اس گھر میں آئے گا تو ہم پھر۔۔۔"۔ "مگر اماں!" بیٹے نے شوخ نگاہوں سے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا "اس وقت تک تم اللہ میاں کے پاس نہ ۔۔۔"! ارے اب تو میرے۔۔۔۔!" اتنے میں گیٹ کسی نے زور سے دھڑ دھڑایا۔ یہ راشدہ کے گھر آنے کا مخصوص انداز تھا۔ راشد نے ماں کی توجہ بٹاتے ہوئے کہا "اماں۔۔۔ لوباجی بھی آ گئی۔ اب جلدی سے کھانا نکالئے۔ مجھے پہلے ہی دیر ہو چکی ہے۔" کھانا تو پہلے ہی سے تیار تھا۔ بس راشدہ ہی کے آنے کی دیر تھی وہ آئی تو سب کھانے پر بیٹھ گئے اور راشد جھٹ پٹ کھانا کھا کر راشدہ اور ماں کو دسترخوان پر ہی چھوڑ کر یہ جا وہ جا۔