نور وجدان
لائبریرین
مَن عِشق کی اگنی جلتی ہے، تم بَنہیّاں تھامو جان پِیا
میں رُوپ سہاگن دھارَن کو، راہ دیکھوں نینَن تان پِیا
بس ایک جھلک پہ جَگ سارا، تَج تیرے پیچھے چل نِکلی
تو عِشق میرا، تو دِین میرا، تو عِلم میرا اِیمان پِیا
میں ننگے پَیروں نَقش تیرے قدموں کے چُنتی آئی ہوں
اب جان سے ہاری راہوں میں، یہ رستہ تو انجان پِیا
سِر مانگے تو میں حاظِر ہوں، زَر مانگو تو میں بے زَر ہوں
تم عِشق کی دولت دان کرو، میں ہو جاؤں دَھنوان پِیا
میں بھُول بھٹک کے ہار گئی، ہر بار تمہارا نام لِیا
اِس عِشق کی کملی جوگن کے، ہر قِصّے کا عُنوان پِیا
میں پیاس سجائے آنکھوں میں، سب دَیر حرم میں ڈھونڈ پھری
اب دیِپ جلائے مَن مندِر، چُپ چاپ کھڑی حیران پِیا
یہ عشق ادب سے عاری ہیں، ان نینن سے کیا بات کروں
تم بھید دلوں کے جانن ہو، تم پر رکھتے ہیں مان پِیا
میں عشق سمندر ڈوب مروں، میں دار پہ تیرے جھول رہوں
میں پریم سفر پہ نکلی ہوں، کیا جانوں خِرد گیان پِیا
میں خاک کی جلتی بھٹی میں، سب خاک جلا کر آئی ہوں
اس خاک کی فانی دنیا کا، ہر سودا تو نقصان پِیا
جب من سے غیر ہٹا آئی، سب کاغذ لفظ جلا آئی
پھر کس کو اپنا حال کہوں، تو حال میرا پہچان پِیا
پھر سورج بجھتا جاتا ہے، پھر رات کا کاجل پھیلے گا
تم کاجل نینن والوں کے من میں ٹھہرو مہمان پِیا
میں ایک جھلک کو ترسی ہوں، کچھ دید نما انوار کرو
میں ایک جھلک کے صدقے میں، ساری تیرے قربان پِیا
میں رُوپ سہاگن دھارَن کو، راہ دیکھوں نینَن تان پِیا
بس ایک جھلک پہ جَگ سارا، تَج تیرے پیچھے چل نِکلی
تو عِشق میرا، تو دِین میرا، تو عِلم میرا اِیمان پِیا
میں ننگے پَیروں نَقش تیرے قدموں کے چُنتی آئی ہوں
اب جان سے ہاری راہوں میں، یہ رستہ تو انجان پِیا
سِر مانگے تو میں حاظِر ہوں، زَر مانگو تو میں بے زَر ہوں
تم عِشق کی دولت دان کرو، میں ہو جاؤں دَھنوان پِیا
میں بھُول بھٹک کے ہار گئی، ہر بار تمہارا نام لِیا
اِس عِشق کی کملی جوگن کے، ہر قِصّے کا عُنوان پِیا
میں پیاس سجائے آنکھوں میں، سب دَیر حرم میں ڈھونڈ پھری
اب دیِپ جلائے مَن مندِر، چُپ چاپ کھڑی حیران پِیا
یہ عشق ادب سے عاری ہیں، ان نینن سے کیا بات کروں
تم بھید دلوں کے جانن ہو، تم پر رکھتے ہیں مان پِیا
میں عشق سمندر ڈوب مروں، میں دار پہ تیرے جھول رہوں
میں پریم سفر پہ نکلی ہوں، کیا جانوں خِرد گیان پِیا
میں خاک کی جلتی بھٹی میں، سب خاک جلا کر آئی ہوں
اس خاک کی فانی دنیا کا، ہر سودا تو نقصان پِیا
جب من سے غیر ہٹا آئی، سب کاغذ لفظ جلا آئی
پھر کس کو اپنا حال کہوں، تو حال میرا پہچان پِیا
پھر سورج بجھتا جاتا ہے، پھر رات کا کاجل پھیلے گا
تم کاجل نینن والوں کے من میں ٹھہرو مہمان پِیا
میں ایک جھلک کو ترسی ہوں، کچھ دید نما انوار کرو
میں ایک جھلک کے صدقے میں، ساری تیرے قربان پِیا