جعفر بشیر
محفلین
مَیں اُس کی نگاہِ ناز کا جب سے دیوانہ ہو گیا
زندگی جینے کا گویا اِک بہانہ ہو گیا
اُفتاں وخیزاں ترے کُوچے تلک پہنچا جو مَیں
اندازِ دل پھر سے وہی عاشقانہ ہوگیا
جب سے نکلے ہم تری محفل سے بے نیل ومرام
دشت ہی پھر تو مرا آشیانہ ہو گیا
دلِ شکستہ کے لئے مئے ناب بھی اب کُچھ نہیں
بے کیف ساقی اب ترا کیوں یہ مئے خانہ ہوگیا
اشک شوئی کے لئے آئے گا وہ سمجھا تھا مَیں
رقیبِ رُوسیا ہ کی طرف ہی وہ روانہ ہوگیا
تیری فُرقت میں مرا دَم گُھٹا جاتا ہے کیوں
ختم کیا میرا یہاں آب و دانہ ہو گیا
جعفرؔ جہدِ للبقا ہو اب یہاں کس کے لئے
تیرا تھا اپنا جو اب تک وہ بیگانہ ہوگیا