مُتفرق اشعار میری بیاض سے۔۔۔۔۔۔۔ش زاد

ش زاد

محفلین
جب بھی تیرے راستے سے گزرے ہیں
دل میں لاکھوں حادثے سے گزرے ہیں
میں بھی اُن کی قربتوں سے ڈر گیا ہوں
وہ بھی اب کے فاصلے سے گزرے ہیں


جو تھا تو اِستعاروں سا نہیں تھا
وہی تارا تھا تاروں سا نہیں تھا
کبوتر ہم بھی بن نہ پائے لوگوں
زمانہ بھی مزاروں سا نہیں تھا


جہاں مجزوب دیکھا ہے زمیں پر
خُدا مطلوب دیکھا ہے زمیں پر


کر نہ دے ایک جھلک میں ہی یہ پتھر مجھ کو
آنکھ سے دیکھنا دُشوار ہے منظر مُجھ کو
میری دُنیا کو ہے منظور بدلنا منظر
پھونک دے صور کی صورت ذرا لے کر مجھ کو


میرے بکھراؤ میں بھی ہاتھ اُسی شخص کا تھا
میں نے اُس شخص کے ہاتھوں میں سِمٹ کر دیکھا


اُس حُسنِ باکمال کا یارا کرے کوئی
سورج ہے آنکھ آنکھ سہارا کرے کوئی


دیکھو برس برس کے ہوا لال آسماں
اِک اور کھا گیا ہے حسیں سال آسماں
جس کی تلاش ہے مُجھے یہ وہ خدا نہیں
یہ کس کے بُن رہا ہے خدو خال آسماں


پہلے نظر میں دردِ جہاں تیرنے لگا
اور پھر مرے وجود میں بھرتا چلا گیا
پہلے تو جسم دستِ ہوا میں سِمٹ گیا
پھر صورتِ غُبار بکھرتا چلا گیا


عدم کیا ہے مُکرر دیکھنا ہے
تو پھر اک بار مر کر دیکھنا ہے
قلم کردے تُجھے سجدے سے کیا ہے
تُجھے تو پاؤں میں سر دیکھنا ہے


ہارنا سیکھ لیا ہے میں نے
آج میں جیت گیا ہوں خُد سے


اب اپنے ہی مُقابل آگئے ہیں
اب اپنا جیتنا ممکن نہیں ہے


اندھیرا اور گہرا ہو رہا ہے
اُجالا پھوٹنے والا ہے شائید

اے کاش مرے پاؤں میں کانٹے ہی اُگ رہیں
اور یہ زمین آبلا بن جائے تو بنے

ش زاد
 

سیما علی

لائبریرین
عذر ان کی زبان سے نکلا
تیر گویا کمان سے نکلا

وہ چھلاوا اس آن سے نکلا
الاماں ہر زبان سے نکلا

خار حسرت بیان سے نکلا
دل کا کانٹا زبان سے نکلا

فتنہ گر کیا مکان سے نکلا
آسماں آسمان سے نکلا

آ گیا غش نگاہ دیکھتے ہی
مدعا کب زبان سے نکلا

کھا گئے تھے وفا کا دھوکا ہم
جھوٹ سچ امتحان سے نکلا

دل میں رہنے نہ دوں ترا شکوہ
دل میں آیا زبان سے نکلا

وہم آتے ہیں دیکھیے کیا ہو
وہ اکیلا مکان سے نکلا

تم برستے رہے سر محفل
کچھ بھی میری زبان سے نکلا

سچ تو یہ ہے معاملہ دل کا
باہر اپنے گمان سے نکلا

اس کو آیت حدیث کیا سمجھیں
جو تمہاری زبان سے نکلا

پڑ گیا جو زباں سے تیری حرف
پھر نہ اپنے مکان سے نکلا

دیکھ کر روئے یار صل علیٰ
بے تحاشا زبان سے نکلا

لو قیامت اب آئی وہ کافر
بن بنا کر مکان سے نکلا

مر گئے ہم مگر ترا ارمان
دل سے نکلا نہ جان سے نکلا

رہرو راہ عشق تھے لاکھوں
آگے میں کاروان سے نکلا

سمجھو پتھر کی تم لکیر اسے
جو ہماری زبان سے نکلا

بزم سے تم کو لے کے جائیں گے
کام کب پھول پان سے نکلا

کیا مروت ہے ناوک دل دوز
پہلے ہرگز نہ جان سے نکلا

تیرے دیوانوں کا بھی لشکر آج
کس تجمل سے شان سے نکلا

مڑ کے دیکھا تو میں نے کب دیکھا
دور جب پاسبان سے نکلا

وہ ہلے لب تمہارے وعدے پر
وہ تمہاری زبان سے نکلا

اس کی بانکی ادا نے جب مارا
دم مرا آن تان سے نکلا

میرے آنسو کی اس نے کی تعریف
خوب موتی یہ کان سے نکلا

ہم کھڑے تم سے باتیں کرتے تھے
غیر کیوں درمیان سے نکلا

ذکر اہل وفا کا جب آیا
داغؔ ان کی زبان سے نکلا
داغ دہلوی
 
Top