ش زاد
محفلین
جب بھی تیرے راستے سے گزرے ہیں
دل میں لاکھوں حادثے سے گزرے ہیں
میں بھی اُن کی قربتوں سے ڈر گیا ہوں
وہ بھی اب کے فاصلے سے گزرے ہیں
جو تھا تو اِستعاروں سا نہیں تھا
وہی تارا تھا تاروں سا نہیں تھا
کبوتر ہم بھی بن نہ پائے لوگوں
زمانہ بھی مزاروں سا نہیں تھا
جہاں مجزوب دیکھا ہے زمیں پر
خُدا مطلوب دیکھا ہے زمیں پر
کر نہ دے ایک جھلک میں ہی یہ پتھر مجھ کو
آنکھ سے دیکھنا دُشوار ہے منظر مُجھ کو
میری دُنیا کو ہے منظور بدلنا منظر
پھونک دے صور کی صورت ذرا لے کر مجھ کو
میرے بکھراؤ میں بھی ہاتھ اُسی شخص کا تھا
میں نے اُس شخص کے ہاتھوں میں سِمٹ کر دیکھا
اُس حُسنِ باکمال کا یارا کرے کوئی
سورج ہے آنکھ آنکھ سہارا کرے کوئی
دیکھو برس برس کے ہوا لال آسماں
اِک اور کھا گیا ہے حسیں سال آسماں
جس کی تلاش ہے مُجھے یہ وہ خدا نہیں
یہ کس کے بُن رہا ہے خدو خال آسماں
پہلے نظر میں دردِ جہاں تیرنے لگا
اور پھر مرے وجود میں بھرتا چلا گیا
پہلے تو جسم دستِ ہوا میں سِمٹ گیا
پھر صورتِ غُبار بکھرتا چلا گیا
عدم کیا ہے مُکرر دیکھنا ہے
تو پھر اک بار مر کر دیکھنا ہے
قلم کردے تُجھے سجدے سے کیا ہے
تُجھے تو پاؤں میں سر دیکھنا ہے
ہارنا سیکھ لیا ہے میں نے
آج میں جیت گیا ہوں خُد سے
اب اپنے ہی مُقابل آگئے ہیں
اب اپنا جیتنا ممکن نہیں ہے
اندھیرا اور گہرا ہو رہا ہے
اُجالا پھوٹنے والا ہے شائید
اے کاش مرے پاؤں میں کانٹے ہی اُگ رہیں
اور یہ زمین آبلا بن جائے تو بنے
دل میں لاکھوں حادثے سے گزرے ہیں
میں بھی اُن کی قربتوں سے ڈر گیا ہوں
وہ بھی اب کے فاصلے سے گزرے ہیں
جو تھا تو اِستعاروں سا نہیں تھا
وہی تارا تھا تاروں سا نہیں تھا
کبوتر ہم بھی بن نہ پائے لوگوں
زمانہ بھی مزاروں سا نہیں تھا
جہاں مجزوب دیکھا ہے زمیں پر
خُدا مطلوب دیکھا ہے زمیں پر
کر نہ دے ایک جھلک میں ہی یہ پتھر مجھ کو
آنکھ سے دیکھنا دُشوار ہے منظر مُجھ کو
میری دُنیا کو ہے منظور بدلنا منظر
پھونک دے صور کی صورت ذرا لے کر مجھ کو
میرے بکھراؤ میں بھی ہاتھ اُسی شخص کا تھا
میں نے اُس شخص کے ہاتھوں میں سِمٹ کر دیکھا
اُس حُسنِ باکمال کا یارا کرے کوئی
سورج ہے آنکھ آنکھ سہارا کرے کوئی
دیکھو برس برس کے ہوا لال آسماں
اِک اور کھا گیا ہے حسیں سال آسماں
جس کی تلاش ہے مُجھے یہ وہ خدا نہیں
یہ کس کے بُن رہا ہے خدو خال آسماں
پہلے نظر میں دردِ جہاں تیرنے لگا
اور پھر مرے وجود میں بھرتا چلا گیا
پہلے تو جسم دستِ ہوا میں سِمٹ گیا
پھر صورتِ غُبار بکھرتا چلا گیا
عدم کیا ہے مُکرر دیکھنا ہے
تو پھر اک بار مر کر دیکھنا ہے
قلم کردے تُجھے سجدے سے کیا ہے
تُجھے تو پاؤں میں سر دیکھنا ہے
ہارنا سیکھ لیا ہے میں نے
آج میں جیت گیا ہوں خُد سے
اب اپنے ہی مُقابل آگئے ہیں
اب اپنا جیتنا ممکن نہیں ہے
اندھیرا اور گہرا ہو رہا ہے
اُجالا پھوٹنے والا ہے شائید
اے کاش مرے پاؤں میں کانٹے ہی اُگ رہیں
اور یہ زمین آبلا بن جائے تو بنے
ش زاد