طارق شاہ
محفلین
دِل کو مِٹا کے داغِ تمنّا دِیا مجھے
اے عِشق ! تیری خیر ہو، یہ کیا دِیا مجھے
محشر میں بات بھی نہ زباں سے نِکل سکی
کیا جُھک کے اُس نگاہ نے سمجھا دِیا مجھے
مَیں، اور آرزُوئےوصالِ پَرِی رُخاں
اِس عِشقِ سادہ لَوح نے، بہکا دِیا مجھے
ہر بار، یاس ہجر میں دِل کی ہُوئی شریک!
ہر مرتبہ ، اُمید نے دھوکہ دِیا مجھے
اللہ رے تیغِ عِشق کی برہم مزاجِیاں
میرے ہی خُونِ شوق میں نہلا دِیا مجھے
خوش ہُوں ،کہ حُسنِ یار نےخود اپنے ہاتھ سے
اِک دِل فریب داغِ تمنّا دِیا مجھے
دُنیا سے کھو چکُا تھا مِرا جوشِ اِنتظار
آوازِ پائے یار نے، چَونکا دِیا مجھے
دعوٰی کِیا تھا ضبطِ محبّت کا، اے جِگر
ظالم نے ، بات بات پہ تڑپا دِیا مجھے
جِگر مُرادآبادی