طارق شاہ
محفلین
غزلِ
مُرتضیٰ برلاس
موج درموج نظر آتا تھا سیلاب مجھے
پاؤں ڈالا تو یہ دریا لگا پایاب مجھے
شدّتِ کرب سے کُمھلا گئے چہرے کے خطوُط
اب نہ پہچان سکیں گے مِرے احباب مجھے
ایک سایہ، کہ مجھے چین سے سونے بھی نہ دے
ایک آواز کہ ، کرتی رہے بیتاب مجھے
جس کی خواہش میں کسی بات کی خواہش نہ رہے
ایسی جنّت کے دِکھائے نہ کوئی خواب مجھے
جب چٹانیں ہی بہی جاتی ہیں تنکوں کی طرح
جانے لے جائے کہاں وقت کا سیلاب مجھے
بُت تو دُنیا نے بہرگام تراشے، لیکن
سر جُھکانے کے نہ آئے کبھی آداب مجھے
وُسعتیں دامنِ صحرا کو بھی بخشی ہوتِیں !
تُو نے بخشی تھی اگر فطرتِ سیماب مجھے
مُرتضیٰ برلاس