ندیم حفی
محفلین
مُسکان تیری اکھیوں کی جب یاد آئے ہے
کُٹیا میں من کی میٹھی سی اک لو جلائے ہے
لمحوں کی بات صدیوں کے سینے میں بس گئی
کہ دو کہ یہ آشفتہ دل قرار پائے ہے
ہستی میری رہینِ شبِ ناتمام بھی
اب روشنی مجھے ترا چہرہ دکھائے ہے
حکایتِ اول جو ان آنکھوں میں بسی تھی
اب حرف حرف وہ تری قربت سنائے ہے
محبت آدمی کے واسطے اک حادثہ ہی ہے
زندگی میں جو عجب اک موڑ لائے ہے
راہ کٹھن اور ہوں میں تھکا مگر
طبیعت سنبھل سنبھل کے اُسی اور جائے ہے
اب کے سمندروں کا سفر خوب تھا حفی
ہمرہیِ دل فگار بہت یاد آئے ہے
کُٹیا میں من کی میٹھی سی اک لو جلائے ہے
لمحوں کی بات صدیوں کے سینے میں بس گئی
کہ دو کہ یہ آشفتہ دل قرار پائے ہے
ہستی میری رہینِ شبِ ناتمام بھی
اب روشنی مجھے ترا چہرہ دکھائے ہے
حکایتِ اول جو ان آنکھوں میں بسی تھی
اب حرف حرف وہ تری قربت سنائے ہے
محبت آدمی کے واسطے اک حادثہ ہی ہے
زندگی میں جو عجب اک موڑ لائے ہے
راہ کٹھن اور ہوں میں تھکا مگر
طبیعت سنبھل سنبھل کے اُسی اور جائے ہے
اب کے سمندروں کا سفر خوب تھا حفی
ہمرہیِ دل فگار بہت یاد آئے ہے