طارق شاہ
محفلین
یاد پھر آئی تِری، موسم سلونا ہو گیا
شُغل سا آنکھوں کا بس دامن بھگونا ہو گیا
اب کسی سے کیا کہیں ہم کِس لئے برباد ہیں
اب کسی کی کیوں سُنیں جو کچھ تھا ہونا ، ہو گیا
گیت بابُل کے سُنانے تیری سکھیاں آ گئیں
میں تو بس بچپن کا اِک ٹُوٹا کھلونا ہو گیا
میری پلکوں پر مِرے خوابوں کی کرچیں رہ گئیں
نیند گھائل ہو گئی آنکھوں میں ، سونا ہو گیا
پھر کسی کی یاد کیوں آتی ہے یارب! خیر ہو
ہم تو، آنسو پُونچھ کر خوش تھے کہ رونا ہو گیا
مصحف اقبال توصیفی