شفیق خلش :::::: مُمکن ہے اِلتجا میں ہماری اثر نہ ہو :::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین



غزل.
مُمکن ہے اِلتجا میں ہماری اثر نہ ہو
ایسا نہیں کہ اُس کو ہماری خبر نہ ہو

خاک ایسی زندگی پہ کہ جس میں وہ بُت، مِرے
خواب و خیال میں بھی اگر جلوہ گر نہ ہو

وہ حُسن ہے سوار کُچھ ایسا حواس پر!
خود سے توکیا، اب اوروں سے ذکرِ دِگر نہ ہو

ہو پیش رفت خاک، مُلاقات پر ہی جب!
کھٹکا رہے یہ دِل میں کہ بیدادگر نہ ہو

دِل کی ہر اِک تمنّا کی بربادی پرہَمَیں
تشوِیش کم رہے یہ کہ حسرت نگر نہ ہو

ہم سے کہیں کہ، زہر ہے بِسیار گوئی بھی
یہ بات ناگوارِ طبیعت اگر نہ ہو

لے جائے کوشِشوں کی مُقابِل جو پِھر سے پاس !
ڈر ہے رہِ گُریز بھی، وہ رہگُزر نہ ہو

شامِل خشُوع و عِجز بھی کرلیں ذرا حضُور
تکلیف کیا دُعا کی وہ جس میں اثر نہ ہو

کرنے کو زندگی بھی ہو کیا زندگی خلشؔ
پانے کی آرزُو اُنھیں دِل میں اگر نہ ہو

شفیق خلشؔ
 
Top