مُکرا ہُوا وعدے سے ہَے، یار مت کہیے


مُکرا ہُوا وعدے سے ہَے، یار مت کہیے
گر پاؤں میں چُبھتا نہِیں خار مت کہیے

ہردم خداکا ساتھ ہَے، جنگل بیانباں ہو
ہم چاہے اکیلے ہی سہی لاچار مت کہیے

لُد گئ ہَے پھُولوں سے گُلاب کی ٹہنی
حاصل تھا یہ زندگِی کا ہار مت کہیے

ہوتا نہ یہ تو جلْتی کْیا دل کی قندِیلیں؟
لاوا ہَے یہ تو پْیارکا انگار مت کہیے

مراسِم نِبھانے تھے تو نِبھاتے رہے وفا
کچھ بھی کہو اُسکو مگر پْیار مت کہیے

محمد علی وفا
 
Top