عمر سیف
محفلین
مِری ذات بھی، مِری بات بھی، مِری شاعری ترے نام سے
میں تھا اپنے آپ سے بے خبر، ملی آگہی ترے نام سے
تھی مہیب تیرگی چار سُو، تھا عجیب خوف سا روبرو
تجھے یاد کرکے میں رو پڑا، ملی روشنی ترے نام سے
میں خزاں رسیدہ درخت تھا،مرا بےبہار سا بخت تھا
مری شاخ شاخ پہ آگئی نئی تازگی ترے نام سے
ترا ذکر دل کا سُرور ہے، تری یاد آنکھ کو نور ہے
مرے دل کی صحن میں کِھل اُٹھی کوئی چاندنی ترے نام سے
مجھے تیرے نام سے پیار ہے، ترا نام میرا وقار ہے
میں تو کل بھی تیری طفیل تھا، میں ہوں آج بھی ترے نام سے
مرے چشم ولب میں، زبان میں، کھلے پھول سے رگِ جان میں
مِرا تلخ لہجہ مِرے نبیﷺ ہوا شبنمی ترے نام سے
تابش کمال