طارق شاہ
محفلین
غزل
اعتبار ساؔجد
مِلیں پھر آکے اِسی موڑ پر، دُعا کرنا
کڑا ہے اب کے ہمارا سفر، دُعا کرنا
دیارِ خواب کی گلیوں کا، جو بھی نقشہ ہو!
مکینِ شہر نہ بدلیں نظر، دُعا کرنا
چراغ جاں پہ ، اِس آندھی میں خیریت گُزرے
کوئی اُمید نہیں ہے، مگر دُعا کرنا
تمہارے بعد مِرے زخمِ نارَسائی کو
نہ ہو نصِیب کوئی چارہ گر ، دُعا کرنا
مُسافتوں میں، نہ آزار جی کو لگ جائے!
مِزاج داں نہ مِلیں ہمسفر، دُعا کرنا
دُکھوں کی دُھوپ میں، دامن کشا مِلیں سائے
گھنے، ہر ے ہی رہَیں سب شجر، دُعا کرنا
نشاطِ قُرب میں، آئی ہے ایسی نیند مجھے!
کُھلے، نہ آنکھ مِری عُمر بھر ، د ُعا کرنا
اعتبار ساؔجد