طارق شاہ
محفلین
غزلِ
حفیظ جالندھری
مِل جائے مے، تو سجدۂ شُکرانہ چاہیے
پیتے ہی ایک لغزشِ مستانہ چاہیے
ہاں احترامِ کعبہ و بُتخانہ چاہیے
مذہب کی پُوچھیے تو جُداگانہ چاہیے
رِندانِ مے پَرست سِیہ مَست ہی سہی
اے شیخ گفتگوُ تو شریفانہ چاہیے
دِیوانگی ہے، عقل نہیں ہے کہ خام ہو
دِیوانہ ہر لحاظ سے، دِیوانہ چاہیے
اِس زندگی کو چاہیے سامان زندگی
کُچھ بھی نہ ہو تو شِیشہ و پیمانہ چاہیے
او ننگِ اعتبار ! دُعا پر نہ رکھ مدار
او بے وقوف، ہمّتِ مردانہ چاہیے
رہنے دے جامِ جم ، مجھے انجام جم سُنا
کُھل جائے جس سے آنکھ، وہ افسانہ چاہیے
حفیظ جالندھری