میر مِیر تقی مِیؔر :::::: غالب کہ یہ دِل خستہ شَبِ ہجر میں مر جائے:::::: Mir Taqi Mir

طارق شاہ

محفلین


غالب کہ یہ دِل خستہ شَبِ ہجر میں مر جائے
یہ رات نہیں وہ، جو کہانی میں گُزر جائے

ہے طُرفہ مُفتّن نِگہ اُس آئینہ رُو کی!
اِک پَل میں کرے سینکڑوں خُوں، اور مُکر جائے

نہ بُت کدہ ہے منزلِ مقصود، نہ کعبہ!
جو کوئی تلاشی ہو تِرا ، آہ ! کِدھر جائے

ہر صُبح تو خورشید تِرے مُنہ پہ چڑھے ہے
ایسا نہ ہو ، یہ سادہ کہِیں جی سے اُتر جائے

یاقُوت کوئی اُن کو کہے ہے، کوئی گُل برگ
ٹک ہونٹھ ہلا تُو بھی ، کہ اِک بات ٹھہر جائے

ہم تازہ شہیدوں کو نہ آؤ دیکھنے نازاں!
دامن کی تِری زہ کہِیں لُو ہُو میں نہ بھر جائے

گریے کو مِرے دیکھ ٹک اِک شہر کے باہر
اِک سطح ہے پانی کا ، جہاں تک کہ نظر جائے

مت بیٹھ بہت عِشق کے آزُردہ دِلوں میں
نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کر جائے

اِس ورطے سے تختہ جو کوئی پُہنچے کنارے
تو مِیؔر! وطن میرے بھی ، شاید یہ خبر جائے

مِیرتقی مِیؔر
 
Top