طارق شاہ
محفلین
غزلِ
میر تقی میؔر
چمکی ہے جب سے برق ِسَحر گُلستاں کی اور
جی لگ رہا ہے خار و خسِ آشیاں کی اور
وہ کیا یہ دل لگی ہے فنا میں ، کہ رفتگاں
مُنہ کرکے بھی نہ سوئے کبھو پھر جہاں کی اور
رنگِ سُخن تو دیکھ ، کہ حیرت سے باغ میں!
رہجاتے ہیں گےدیکھ کے گُل اُس دَہاں کی اور
آنکھیں سی کُھل ہی جائیں گی جو مرگیا کوئی
دیکھا نہ کر غضب سے کِسو خَستہ جاں کی اور
کیا بے خبر ہے رفتنِ رنگین عُمر سے
جوئے چمن میں دیکھ ٹک آبِ رَواں کی اور
یھاں تابِ سعی کِس کو ،مگر جذب عِشق کا
لاوے اُسی کو کھینچ کِسو ناتواں کی اور
یا رب! ہے کیا مزہ سُخَنِ تلخِ یار میں
رہتے ہیں کان سب کے ، اُسی بد زباں کی اور
یا دِل وہ دیدنی تھی جگہ ، یا کہ تجھ بغیر!
اب دیکھتا نہیں ہے کوئی اِس مکاں کی اور
آیا کسے تکدّرِ خاطر ہے زیرِ خاک
جاتا ہےاکثر اب تو غُبار آسماں کی اور
کیا حال ہو گیا ہے تِرے غم میں میؔر کا
دیکھا گیا نہ ہم سے تو، ٹک اُس جواں کی اور
میرتقی میؔر
آخری تدوین: