مٹی سنوار کر مری ، دیپک میں ڈھال دے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مٹی سنوار کر مری ، دیپک میں ڈھال دے
مجھ کو جلا کے پھر مری دنیا اُجال دے

مجھ کو اُٹھا کے رکھ کسی طوفاں کی آنکھ میں
ہر موج ِ مضطرب مرے سر سے اچھال دے

ٹکرادے حوصلہ مرا آلام ِ زیست سے
مرنے کی آرزو کو بھی دل سے نکال دے

پامال راستوں سے ہٹا کر مرے قدم
نایافت منزلوں کے اشارے پہ ڈال دے

اک مستعار آگہی اُلجھا گئی ہے ذہن
دے مجھ کو سوچ میری اور اپنا خیال دے

خاموشیوں کے دہر میں لائے جو ارتعاش
مجبور مصلحت کو وہ حرفِ مجال دے


( ناتمام)

ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۸​
 
مٹی سنوار کر مری ، دیپک میں ڈھال دے
مجھ کو جلا کے پھر مری دنیا اُجال دے

ٹکرادے حوصلہ مرا آلام ِ زیست سے
مرنے کی آرزو کو بھی دل سے نکال دے

پامال راستوں سے ہٹا کر مرے قدم
نایافت منزلوں کے اشارے پہ ڈال دے
بہت خوب ظہیر بھائی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خوب۔ مگر چھ اشعار تو ہو چکے، نا مکمل کیسے؟
اعجاز بھائی ، دو تین اشعار اس غزل کے اور ملے تھے لیکن ان میں اس قدر کاٹ پیٹ تھی کہ فی الفور ان کی کوئی معقول صورت بنتی نطر نہیں آئی ۔ اٹھا کر رکھ دیئے ہیں کہ فرصت ملی اور طبیعت ادھر آئی تو شایدنوک پلک درست کرلوں اورپھر بعد میں اضافہ کردوں ۔
 
Top