سید شہزاد ناصر
محفلین
یہ بھنبھناتا ہوا ننھا سا پرندہ آپ کو بہت ستاتا ہے ۔ رات کو نیند حرام کردی ہے ۔ ہندو، مسلمان ، سکھ ، عیسائی ، یہودی سب بالا تفاق اس سے ناراض ہیں ۔ ہر روز اس کے مقابلہ کے لیے مہمیں تیار ہوتی ہیں ، جنگ کے نقشے بنائے جاتے ہیں ۔ مگر مچھروں کے جنرل کے سامنے کسی کی نہیں چلتی ۔ شکست پر شکست ہوئی چلی جاتی ہے اور مچھروں کا لشکر بڑھا چلا آتا ہے ۔
اتنے بڑے ڈیل ڈول کا انسان ذرا سے بھنگے پر قابو نہیں پاسکتا۔ طرح طرح کے مصالحے بھی بناتا ہے کہ ان کی بو سے مچھر بھاگ جائیں ۔ لیکن مچھر اپنی یورش سے باز نہیں آتے ۔ آتے ہیں اور نعرے لگاتے ہوئے آتے ہیں ۔ بے چارہ آدم زاد حیران رہ جاتا ہے اور کسی طرح ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
امیر۔ غریب۔ ادنیٰ ۔ اعلیٰ ۔ بچے ۔ بوڑھے ۔ عورت۔ مرد ۔ کوئی اس کے وار سے محفوظ نہیں ۔ یہاں تک کہ آدمی کے پاس رہنے والے جانوروں کو بھی ان کے ہاتھ سے ایذا ہے ۔ مچھر جانتا ہے کہ دشمن کے دوست بھی دشمن ہوتے ہیں ۔ ان جانوروں نے میرے دشمن کی اطاعت کی ہے تو میں ان کو بھی مزا چکھاؤں گا۔
آدمیوں نے مچھروں کے خلاف ایجی ٹیشن کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ۔ ہر شخص اپنی سمجھ اور عقل کے موافق مچھروں پر الزام رکھ کر لوگوں میں ان کے خلاف جوش پیدا کرنا چاہتا ہے مگر مچھراس کی کچھ پروا نہیں کرتا۔
طاعون نے گڑ بڑ مچائی تو انسان نے کہا کہ طاعون مچھر اور پسو کے ذریعے سے پھیلتا ہے ۔ ان کو فنا کردیا جائے تو یہ ہولناک وبادور ہو جائے گی ۔ ملیریا پھیلا تو اس کا الزام بھی مچھر پر عائد ہوا۔ اس سرے سے اس سرے تک کالے گورے آدمی غل مچانے لگے کہ مچھروں کو مٹادو۔ مچھروں کو کچل ڈالو۔ مچھروں کو تہس نہس کردواور ایسی تدبیرنکالیں جن سے مچھروں کی نسل ہے منقطع ہو جائے ۔
مچھر بھی یہ سب باتیں دیکھ رہا تھا اور سن رہا تھااور رات کو ڈاکٹر صاحب کی میز پر رکھے ہوئے ’’پانیر‘‘ کو آکر دیکھتا اور اپنی برائی کے حروف پر بیٹھ کر اس خون کی ننھی ننھی بوندیں ڈال جاتا جو انسان کے جسم سے یا خود ڈاکٹر صاحب کے جسم سے چوس کر لایا تھا۔ گویا اپنے فائدہ کی تحریر سے انسان کی ان تحریروں پر شوخیانہ ریمارک لکھ جاتا کہ میاں تم میرا کچھ نہیں کرسکتے ۔
انسان کہتا ہے کہ مچھر بڑا کم ذات ہے ۔ کوڑے ،کرکٹ،میل کچیل سے پیدا ہوتا اور گندی موریوں میں زندگی بسر کرتا ہے اوربزدلی تو دیکھو اس وقت حملہ کرتاہے جب کہ ہم سو جاتے ہیں ۔ سوتے پر وار کرنا، بے خبر کے چرکے لگانا مردانگی نہیں انتہا درجے کی کمینگی ہے ۔ صورت تو دیکھو کالا بھتنا۔ لمبے لمبے پاؤں بے ڈول چہرہ اس شان و شوکت کا وجود اور آدمی جیسے گورے چٹے ۔ خوش وضع۔ پیاری ادا کے آدمی کی دشمنی ، بے عقلی اور جہالت اسی کوکہتے ہیں۔ مچھر کی سنو تو وہ آدمی کو کھری کھری سناتا ہے اورکہتا ہے کہ جناب ہمت ہے تو مقابلہ کیجئے ۔ ذات صفات نہ دیکھیے ۔ میں کالا سہی ، بدرونق سہی ، نیچ ذات سہی اور کمینہ سہی مگر یہ تو کہیے کہ کس دلیری سے آپ کا مقابلہ کرتا ہوں اور کیوں کر آپ کی ناک میں دم کرتاہوں ۔
یہ الزام سراسر غلط ہے کہ بے خبری میں آتا ہوں اور سوتے میں ستاتا ہوں ۔ یہ تم اپنی عادت کے موافق سراسر نا انصافی کرتے ہو۔ حضرت میں تو کان میں آکر ’’الٹی میٹم‘‘ دے دیتا ہوں کہ ہوشیار ہو جاؤ۔ اب حملہ ہوتا ہے ۔ تم ہی غافل رہو تو میرا کیا قصور۔ زمانہ خود فیصلہ کردے گا کہ میدان جنگ میں کالا بھتنا ، لمبے لمبے پاؤں والا بے ڈول فتح یاب ہوتا ہے یاگورا چٹا آن بان والا۔
میرے کارناموں کی شاید تم کو خبر نہیں کہ میں نے اس پر دۂ دنیا پر کیا کیا جوہر دکھائے ہیں ۔ اپنے بھائی نمرود کا قصّہ بھول گئے جو خدائی کا دعویٰ کرتاتھا اور اپنے سامنے کسی کی حقیقت نہ سمجھتا تھا ۔ کس نے اس کا غرور توڑا ۔ کون اس پر غالب آیا۔ کس کے سبب اس کی خدائی خاک میں ملی ؟ اگر آپ نہ جانتے ہوں تو اپنے ہی کسی بھائی سے دریافت کیجیے یا مجھ سے سنیے کہ میرے ہی ایک بھائی مچھر نے اس سرکش کا خاتمہ کیا تھا۔
اور تم تو ناحق بگڑتے ہو اور خواہ مخواہ اپنا دشمن تصورکیے لیتے ہو۔ میں تمھارا مخالف نہیں۔ اگر تم کو یقین نہ آئے تو اپنے کسی شب بیدار صوفی بھائی سے دریافت کرلو۔ دیکھو وہ میری شان میں کیا کہے گا۔ کل ایک شاہ صاحب عالم ذوق میں اپنے ایک مرید سے فرما رہے تھے کہ میں مچھر کی زندگی کو دل سے پسند کرتا ہوں ۔ دن بھر بےچارا خلوت خانہ میں رہتا ہے رات کو ، جو خدا کی یاد کا وقت ہے ،باہر نکلتا ہے اور پھر تمام شب تسبیح و تقدیس کے ترانے گایا کرتاہے ۔ آدمی غفلت میں پڑے سوتے ہیں تو اس کو ان پر غُصّہ آتا ہے ۔ چاہتا ہے کہ یہ بھی بیدار ہو کر اپنے مالک کے دیے ہوئے اس سہانے خاموش وقت کی قدر کرے اور حمد شکر کے گیت گائے ۔ اس لیے پہلے ان کے کان میں جاکر کہتا ہے کہ اُٹھو میاں ! اُٹھو جاگو جاگنے کا وقت ہے ۔ سونے کا اور ہمیشہ سونے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ جب آئے گا توبے فکر ہوکر سونا۔ اب تو ہوشیار رہنے اور کچھ کام کرنے کا موقع ہے مگر انسان اس سریلی نصیحت کی پروا نہیں کرتا اور سوتا رہتا ہے تو مجبور ہو کر غُصّہ میں آجاتا ہے اور اس کے چہرہ اور ہاتھ پاؤں پر ڈنگ مارتا ہے ۔ پرواہ رے انسان آنکھیں بند کیے ہوئے ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور بے ہوشی میں بدن کھجا کر پھر سو جاتا ہے اور جب دن کو بیدار ہوتا ہے تو بے چارا مچھر کو صلواتیں سناتا ہے کہ رات بھر سونے نہیں دیا۔ کوئی اس دروغ گو سے پوچھے کہ جناب عالی ! کتنے سکنڈ جاگے تھے جو ساری رات جاگتے رہنے کا شکوہ ہو رہاہے ۔
شاہ صاحب کی زبان سے یہ عارفانہ کلمات سن کر میرے دل کو بھی تسلی ہوئی کہ غنیمت ہے ان آدمیوں میں بھی انصاف والے موجود ہیں بلکہ میں دل میں شرمایا کہ کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ شاہ صاحب مصلے پر بیٹھے وظیفہ پڑھا کرتے ہیں اور میں ان کے پیروں کا خون پیا کرتا ہوں ۔ یہ تو میری نسبت ایسی اچھی اور نیک رائے دیں اور میں ان کو تکلیف دوں ۔ اگرچہ دل نے یہ سمجھایا کہ تو کاٹتا تھوڑی ہے ۔ قدم چومتا ہے اور ان بزرگوں کے قدم چومنے ہی کے قابل ہوتے ہیں لیکن اصل یہ ہے کہ اس سے میری ندامت دور نہیں ہوتی اور اب تک میرے دل میں اس کا افسوس باقی ہے ۔
سواگر سب انسان ایسا طریقہ اختیار کرلیں جیسا کہ صوفی صاحب نے کیا تو یقین ہے کہ ہماری قوم انسان کو ستانے سے خود بخود باز آجائے گی ورنہ یادرہے کہ میرا نام مچھر ہے ۔ لطف سے جینے نہ دوں گا اور بتادوں گا کہ کمین اور نیچ ذات اعلیٰ ذات والوں کو یوں پریشان اور بے چین کرسکتی ہے ۔