ضیاء حیدری
محفلین
مچھر کھٹمل اور مکھیاں
عنوان دیکھ کر آپ کو خیال آئے گا کہ میں کراچی کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں، ایسی بات نہیں ہے، نہ ہماری بات کی اہمیت اور نہ کراچی کی۔۔۔۔۔ ویسے بھی کراچی کی آبادی مردم شماری میں گٹھا کر شو کی جاتی ہیں جبکہ اس مخلوق کی بڑحتی ہوئی آبادی قابل ذکر سمجھی جاتی ہے، اس کثرت اولاد کی وجہ کچھ بھی ہوسکتی ہے، نر کا عاشق مزاج ہونا یا مادہ میں جذبہ ممتا کی زیادتی وغیرہ وغیرہ۔مچھر
مچھر سے آپ کتنی ہی نفرت کریں مگر یہ آپ کی چمی لینے سے باز نہیں آئے گا ، یہ بدمعاش رقص و موسیقی کا دلدادہ ہوتا ہے اور آپ کو تالیاں پیٹنے پرمجبور کردیتا ہے ، ہم مچھر کے لئے مذکر کا ضیغہ استعمال کرتے ہیں، مگر اس کی مادہ زیادہ خطرناک ہوتی ہے، اتنی خطرناک نہیں ہوتی ہے جتنی آذادی مارچ والی آنٹیاں ہوتی ہیں جنھیں شادی کرنے میں غلامی نظر آتی ہے اور اپنا جسم اپنی مرضی سے ہر کسی کو پیش کرنا آذادی ہے ان کے نزدیک۔۔۔۔
مچھر سے بچاؤ کے لئے مچھر دانی اور مختلف ڈیوائسز استعمال کی جاتی ہیں، اس کی آبادی کے پھیلاؤ کے لئے گٹر اور نالوں کی صفائی ضروری ہے، مگر ایک زرداری سب پر بھاری ہے اور کراچی والوں پر زیادہ بھاری ہے۔
مچھر کی عادت و اخلاق پر زیادہ ریسرچ کی ضرورت نہیں ہے، مان نہ مان میں تیرا مہمان اس کا سلوگن ہے، جیسا شادی ہالوں کے اردگرد رہنے والوں کا ہوتا ہے، ایک صاحب جو نارتھ ناظمآباد کے رہنے والے تھے ان میں مچھر کی خصلت پیدا ہوگئی تھی، مہینہ کچھ ایسا چل رہا تھا جس میں شادی ہال کی رونقیں ماند پڑ جاتی ہیں، مفتے میں صرف شیرمال ملتی وہ بھی تبرکاََ ۔۔۔۔ مچھروں پر ایسی قحط کا مہینہ کبھی نہیں آتا ہے۔ کیونکہ انسان تو صبر کرلے گا مگر مچھر سے صبر نہیں ہوتا ہے۔ سرراہ چمی لینا شروع کردیتا ہے اور جب بندہ اپنے بستر پر ہوتا ہے تو مکمل اس کی دسترس میں۔۔۔۔
مکھی
پر ہم کچھ نہ لکھیں گے، کیونکہ مادہ ہے، اس کا نر گوشہ گمنامی میں ہے، اس کو آذادی ہے، جہاں چاہے بیٹھے مگر اس کی خصلت آذادی مارچ والی آنٹیوں کی سی ہے جب بیٹھے گی گندگی پر بیٹھی گی۔
کھٹمل
یہ بھی عجب مخلوق ہے، ہماری چارپائی میں گھس کر ہمارا خون چوستی ہے، اس کی فطرت کرپٹ سیاستدانوں سے ملتی جلتی ہے،خوں چوسنے سے باز نہیں آتا ہے چاہے پیٹ کتنا ہی بھرا ہوا ہو۔ اس کو سیاہ اور سرخ رنگ پسند آتا ہے، اب یہ بھی ضروری نہیں جو سیاہ رنگ پسند کرے وہ کھٹمل کا ڈی این اے رکھتا ہو، انسانوں میں سیاہ رنگ غم کی علامت ہوتا ہے، کچھ لوگ اس ڈر سے کہ انھیں فطرتاََ کٹمل نہ سمجھ لیا جائے بازو پر صرف پٹی باندھ کر یوم سیاہ مناتے ہیں۔
ہم کھٹمل کے خلاف نہیں ہیں بس یہ خون چوسنا بند کردے اس میں ہم بھی سکون سے اور بھی۔۔۔
مچھر کھٹمل اور مکھیوں پر لکھتے ہوئے خیال آیا کچھ جوؤں پر لکھنا چاہئے، لیکن ہمیں اس پر رشک آتا ہے، جن زلفوں کے سایے کے لئے ہمارے شاعر ترستے رہتے ہیں، یہ ان میں مقیم ہوتی ہیں۔
جتنی زیادہ گھنی زلفیں ہوں گی اتنی زیادہ ان کی بستیوں کا امکان ہوتا ہے، اس لئے گھنی زلفوں سے ذرا بچ کے۔۔۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا،
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا
لیکن میں کہتا ہوں، یہ جینا کیا جینا ہے، ہر وقت کی کھجلی ہر وقت کا کھجانا ہے۔
آخری تدوین: