سحرش سحر
محفلین
ابھی کل ہی عجلت میں، میں نے اپنے بیگ میں سے کچھ ضروری کاغذات اور پیسے نکال کر ایک کلچ میں رکھ دیے ۔ ایک لفافے میں کچھ سامان سمیت اسے بھی ڈال دیا اور روانہ ہو گئی ۔ روڈ پر ٹیکسی پکڑنے سے پہلے مجھے پیسوں کا خیال آیا اور اس کلچ کی طرف دھیان گیا کہ آیا میں نے نکلتے ہوئے اسے اٹھایا بھی تھا یا وہ کمرے میں صوفہ پر ہی پڑا رہ گیا ؟ میرا دل دھک سے رہ گیا ۔ اب کیا ہوگا ؟ گھر والوں سے رابطہ کرنا بھی نا ممکن تھا ۔ موبائل فون بھی تو اسی میں رکھا تھا ۔ ۔ گھر تک واپسی کے لیے بھی کچھ وقت درکار تھا مگر وہ بھی ندارد ۔ میں اسے اس لفافہ میں ٹٹولنے لگی ۔
اس ٹٹولنے کے عمل کے دوران ان چند ہی گھڑیوں میں، میں نےخود کو ہزار بار ملامت کیا ہوگا کہ کمرے سے نکلتے ہوئے میں نے پیچھے مڑ کر کیوں نہیں دیکھا ۔ مجھے دیکھنا چاہیے تھا کہ آیا کچھ رہ تو نہیں گیا ۔ انہی ملامت بھری گھڑیوں میں ، میں ایک اور عجیب احساس سےآشنا ہوئی کہ ہم اپنی زندگی کی خود غرضی و خود پرستی پر مبنی عجلت میں ....تیزی میں .... بہت کچھ پیچھے چھوڑ کر آگے کو بھاگے جا رہےہیں ۔
بہت ہی پیارے رشتہ ناتوں کو ...عزیز دوستوں کو ... کچھ اپنوں، کچھ پرایوں کو ' اپنے ساتھ ساتھ لے کر جانا بھول جاتے ہیں ۔ کہ جن کا وجود ہماری زندگیوں میں بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ جن کے دم قدم سے ہماری زندگیاں حسین ہیں ۔ زندگی کا سفر آسان ہے ۔ جن کے ہوتے ہوئے تنہائ کا بھوت ہمیں ڈرانے نہیں آ سکتا ۔ جن سے جڑے رہنے میں ہی ایک احساسِ تحفظ و طمانیت ہے ۔
جوائنٹ فیملی سسٹم کا صدیوں پرانا مضبوط اور تناور شجر اب ڈالی' ڈالی، پتا 'پتا بن کر بکھر گیا ہے ۔
بے شک اس سسٹم میں سانس لینے کے لیے اکسیجن بھی شراکت داری کی بنیاد پر لی جاتی تھی ۔ جس کی وجہ سے گھٹن زدہ ماحول میں اس شجر کی کئی ایک ڈالیوں کو پھلنے پھولنے کا (بھرپور صلاحیت کے باوجود) موقع نہیں مل پا تا تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سبھی ڈالیاں ہری بھری رہتی تھی ۔ اگر ان میں سےکوئی شاخ کمزور بھی ہوتی تب بھی اسے اپنی بقا کے لیے باقی ماندہ ڈالیوں کے سامان بقا میں سے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا تھا ۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس مشترکہ خاندانی نظام میں خرابیاں زیادہ تھیں یا خوبیاں؟
واقعی بہت سی خرابیاں تھیں کہ جن کی بناء پر اسے خیر باد کہنے میں ہی عافیت جانی گئی ۔
شاید! ساری اپنائیت اور محبت، قربت میں ہی ہوتی ہے ۔ جتنے فاصلے بڑھتے ہیں اتنی ہی محبتیں کم ہوتی جاتی ہیں ۔ اب چونکہ مشترکہ خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر چکا ہےاسلیے سگے خونی رشتوں کے باوجود ہر ایک مستقبل کے بارے میں کچھ حد تک فکرمند رہتا ہے کہ اگر زندگی اسے بیچ راہ میں چھوڑ کر چلی جائے تو اس کے بال بچوں کا کیا بنے گا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر زمانے کی سختیوں کے آگے کھڑے ہونے کی سکت خود اس میں باقی نہ رہے تو اس کا کیا بنے گا ؟وہ کس کا دروازہ کھٹکھٹا ئے گا ؟۔ ۔ ۔ بھائی کا ۔ ۔ ۔ بہن کا ۔ ۔ ۔ ۔ کس بیٹے کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کس عزیز کا ۔ ۔ ۔ کس دوست کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟؟؟ کون ساتھ دے گا؟
قارئین کرام! ایک لمحہ کے لیے آپ بھی سوچیں کہ خدانخواستہ! اگر زندگی آپ کو بھی ایسی کسی آزمائش سے دوچار کردے تو ہے کوئی ایسا جو آپ کا بوجھ ہنسی خوشی اٹھانے کو تیار ہو جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے کوئی ایسا کندھا کہ جس پر آپ اپنا سر رکھ کر، آنسو بہا کر اپنا غم ہلکا کر سکے ۔ ۔ ۔ ہے کوئی ایسا جو ہمدردی کے دو بول، بول کر آپ کا دکھ بانٹ سکے ۔ ۔ ۔ ۔ ہے کوئی ایسا بے لوث رشتہ جس کو مصیبت میں آواز دی جا سکے اور وہ آپ کی پکار پر لبیک کہنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ہے کوئی ایسا با اعتماد ، جس سے آپ اپنے سینہ پر بوجھ بنے بھاری راز بتا کر اپنا بوجھ ہلکا کر سکے ۔ ۔ ۔ ۔
اگر اپ کو ایسا کوئی میسر ہے تو آپ بہت ہی خوش قسمت ہیں ۔ اس انسان کی قدر کیجیے بلکہ بہت قدر کیجئے اوراگر اپ ایسے رشتے ناتے سے محروم ہیں تو یہ آپ کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔
یاد رکھیں! آج آپ خلوص نیت سے کسی کے درد کی دوا بنیں گے تو کل کو کوئی آپ کے زخموں پر بھی پھا ہا رکھنے والا ہوگا ۔
خود غرضی ترک کریں یا اس کا لیول کم کردیں ۔ اپنی سوچ بدل ڈالیں ۔ دوسروں کا سہارا بن جائیں، بے شک کچھ حد تک ۔ وہ کندھا بن جائیں کہ جس پر کوئی غمزدہ انسان اپنا سر رکھ کر رو سکے۔ وہ دل بن جائیں جو ہر راز کو اپنے پردوں میں چھپا کر رکھ سکے ۔ دوسروں کا دکھ درد بانٹنے کا ظرف خود میں پیدا کریں
اور یہ سب تبھی ممکن ہے جب آپ اپنے پیاروں کو ساتھ لے کر چلنے کا تہیہ کر لیں گے ۔( اس ضمن میں آپ کے خونی رشتے زیادہ مستحق ہیں ۔) دوسروں کو وقت دیں ۔ دوسروں پر اپنا مال....اپنی کمائی ( تھوڑی یا زیادہ) خرچ کرنے کا حوصلہ پیدا کریں ۔ اس سے رشتوں (انسانی و خونی)میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے ۔ محبتیں بڑھتی ہیں ۔ اسی لیے تو اللہ نےہدیہ دینے کا، ایک دوسرے پر خرچ کرنے کاحکم دیا ہےاور صدقات و خیرات دینے کا بھی بڑا اجر رکھا ہے ۔
دنیاوی مال و دولت ہمیشہ سے انسان کی کمزوری اورسب سے بڑی ضرورت رہا ہے ۔ ہر کوئی آڑے وقت کے لیے پیسہ پیسہ جوڑ کر سنبھال کر رکھتا ہے اور اس پر سانپ بن کر بیٹھا رہتا ہے کیونکہ یہی یقین غالب ہوتا ہے کہ یہ پیسہ ہی کام آئے گا نہ کوئی عزیز ....نہ رشتہ دار ....نہ ہی کوئی دوست یا ساتھی ۔ رشتوں سے اعتماد جو اٹھ گیا ہے ۔
تو جناب! پیسے پر یقین ہے مگر انسانوں پر اعتماد نہیں ۔ یہیں سے رشتہ ناتے کمزور ہو جاتے ہیں ۔ ہم آگے نکل جاتے ہیں اور ہمارے پیارے کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں یا وہ ہمیں پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نکل جاتے ہیں ۔ پھر ہر ایک ، بے رحم زندگی کے کٹھن راستوں پر اکیلا، تنہا ہنستا روتا ، اپنا اور اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائےہوئے ہانپتا کانپتا چلتا جاتا ہے ۔ بعض ایسے بد بخت بھی ہوتے ہیں جو تن تنہا اس سفر کی مشکلات نہیں سہہ پاتے اور بیچ راہ میں ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔ اب اس موقع پر ساری سوسائٹی، جس نے اسے تنہائی کے جھولے میں ڈال کر موت کی لوری سنا کر سلا دیا ہوتا ہے، خود کشی کے فعل کی سخت مذ مت کرکے............ دورجدید کی مادہ پرستی اور بے حسی کو........... زمانہ کی خرابی کو.......... گالیاں دے کر اور اس بد قسمت انسان پر لعنت ملامت کر کے اس جرم سے بری الذمہ ہونے میں ہر بار کامیاب ہو جاتی ہے لیکن یہ جان رکھیں کہ پوچھ ہوگی اور ضرور ہوگی ۔
محترم قارئین کرام! زندگی میں ضرور آگے بڑھیں، بڑھتے جائیں مگر کبھی کبھار پیچھے مڑکر دیکھا کریں کہ کچھ پیچھے رہ تو نہیں گیا ۔
اور ایک آخری بات ۔ وہ یہ کہ ہمارا تعلق اپنے خالق و مالک کے ساتھ مضبوط ہونا چاہیے ۔ وہ عظیم ہستی تو ہر جگہ موجود ہے ۔ بس اس کے موجود ہونے کا احساس ساتھ رکھنا چاہیے ۔ خیال رکھیں کہ اس فانی دنیا کے جھمیلوں میں یہ احساس کہیں پیچھے نہ رہ جائے..........کہیں کھو نہ جائے ۔ ورنہ ہم سب زندگی کی بند گلی میں بے یارومددگار ایسے ہی حیران و پریشان کھڑے ہوں گے جیسا کہ میں آج اس بھیڑ میں ہیبت زدہ صورت بنا کر روڈ پر کھڑی اپنا کلچ ڈھونڈنے میں مگن ہوں ...
اللہ اکبر .....شکر ہے، یہ رہا، مل گیا ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔
سحرش سحر
اس ٹٹولنے کے عمل کے دوران ان چند ہی گھڑیوں میں، میں نےخود کو ہزار بار ملامت کیا ہوگا کہ کمرے سے نکلتے ہوئے میں نے پیچھے مڑ کر کیوں نہیں دیکھا ۔ مجھے دیکھنا چاہیے تھا کہ آیا کچھ رہ تو نہیں گیا ۔ انہی ملامت بھری گھڑیوں میں ، میں ایک اور عجیب احساس سےآشنا ہوئی کہ ہم اپنی زندگی کی خود غرضی و خود پرستی پر مبنی عجلت میں ....تیزی میں .... بہت کچھ پیچھے چھوڑ کر آگے کو بھاگے جا رہےہیں ۔
بہت ہی پیارے رشتہ ناتوں کو ...عزیز دوستوں کو ... کچھ اپنوں، کچھ پرایوں کو ' اپنے ساتھ ساتھ لے کر جانا بھول جاتے ہیں ۔ کہ جن کا وجود ہماری زندگیوں میں بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ جن کے دم قدم سے ہماری زندگیاں حسین ہیں ۔ زندگی کا سفر آسان ہے ۔ جن کے ہوتے ہوئے تنہائ کا بھوت ہمیں ڈرانے نہیں آ سکتا ۔ جن سے جڑے رہنے میں ہی ایک احساسِ تحفظ و طمانیت ہے ۔
جوائنٹ فیملی سسٹم کا صدیوں پرانا مضبوط اور تناور شجر اب ڈالی' ڈالی، پتا 'پتا بن کر بکھر گیا ہے ۔
بے شک اس سسٹم میں سانس لینے کے لیے اکسیجن بھی شراکت داری کی بنیاد پر لی جاتی تھی ۔ جس کی وجہ سے گھٹن زدہ ماحول میں اس شجر کی کئی ایک ڈالیوں کو پھلنے پھولنے کا (بھرپور صلاحیت کے باوجود) موقع نہیں مل پا تا تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سبھی ڈالیاں ہری بھری رہتی تھی ۔ اگر ان میں سےکوئی شاخ کمزور بھی ہوتی تب بھی اسے اپنی بقا کے لیے باقی ماندہ ڈالیوں کے سامان بقا میں سے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا تھا ۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس مشترکہ خاندانی نظام میں خرابیاں زیادہ تھیں یا خوبیاں؟
واقعی بہت سی خرابیاں تھیں کہ جن کی بناء پر اسے خیر باد کہنے میں ہی عافیت جانی گئی ۔
شاید! ساری اپنائیت اور محبت، قربت میں ہی ہوتی ہے ۔ جتنے فاصلے بڑھتے ہیں اتنی ہی محبتیں کم ہوتی جاتی ہیں ۔ اب چونکہ مشترکہ خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر چکا ہےاسلیے سگے خونی رشتوں کے باوجود ہر ایک مستقبل کے بارے میں کچھ حد تک فکرمند رہتا ہے کہ اگر زندگی اسے بیچ راہ میں چھوڑ کر چلی جائے تو اس کے بال بچوں کا کیا بنے گا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر زمانے کی سختیوں کے آگے کھڑے ہونے کی سکت خود اس میں باقی نہ رہے تو اس کا کیا بنے گا ؟وہ کس کا دروازہ کھٹکھٹا ئے گا ؟۔ ۔ ۔ بھائی کا ۔ ۔ ۔ بہن کا ۔ ۔ ۔ ۔ کس بیٹے کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کس عزیز کا ۔ ۔ ۔ کس دوست کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟؟؟ کون ساتھ دے گا؟
قارئین کرام! ایک لمحہ کے لیے آپ بھی سوچیں کہ خدانخواستہ! اگر زندگی آپ کو بھی ایسی کسی آزمائش سے دوچار کردے تو ہے کوئی ایسا جو آپ کا بوجھ ہنسی خوشی اٹھانے کو تیار ہو جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے کوئی ایسا کندھا کہ جس پر آپ اپنا سر رکھ کر، آنسو بہا کر اپنا غم ہلکا کر سکے ۔ ۔ ۔ ہے کوئی ایسا جو ہمدردی کے دو بول، بول کر آپ کا دکھ بانٹ سکے ۔ ۔ ۔ ۔ ہے کوئی ایسا بے لوث رشتہ جس کو مصیبت میں آواز دی جا سکے اور وہ آپ کی پکار پر لبیک کہنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ہے کوئی ایسا با اعتماد ، جس سے آپ اپنے سینہ پر بوجھ بنے بھاری راز بتا کر اپنا بوجھ ہلکا کر سکے ۔ ۔ ۔ ۔
اگر اپ کو ایسا کوئی میسر ہے تو آپ بہت ہی خوش قسمت ہیں ۔ اس انسان کی قدر کیجیے بلکہ بہت قدر کیجئے اوراگر اپ ایسے رشتے ناتے سے محروم ہیں تو یہ آپ کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔
یاد رکھیں! آج آپ خلوص نیت سے کسی کے درد کی دوا بنیں گے تو کل کو کوئی آپ کے زخموں پر بھی پھا ہا رکھنے والا ہوگا ۔
خود غرضی ترک کریں یا اس کا لیول کم کردیں ۔ اپنی سوچ بدل ڈالیں ۔ دوسروں کا سہارا بن جائیں، بے شک کچھ حد تک ۔ وہ کندھا بن جائیں کہ جس پر کوئی غمزدہ انسان اپنا سر رکھ کر رو سکے۔ وہ دل بن جائیں جو ہر راز کو اپنے پردوں میں چھپا کر رکھ سکے ۔ دوسروں کا دکھ درد بانٹنے کا ظرف خود میں پیدا کریں
اور یہ سب تبھی ممکن ہے جب آپ اپنے پیاروں کو ساتھ لے کر چلنے کا تہیہ کر لیں گے ۔( اس ضمن میں آپ کے خونی رشتے زیادہ مستحق ہیں ۔) دوسروں کو وقت دیں ۔ دوسروں پر اپنا مال....اپنی کمائی ( تھوڑی یا زیادہ) خرچ کرنے کا حوصلہ پیدا کریں ۔ اس سے رشتوں (انسانی و خونی)میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے ۔ محبتیں بڑھتی ہیں ۔ اسی لیے تو اللہ نےہدیہ دینے کا، ایک دوسرے پر خرچ کرنے کاحکم دیا ہےاور صدقات و خیرات دینے کا بھی بڑا اجر رکھا ہے ۔
دنیاوی مال و دولت ہمیشہ سے انسان کی کمزوری اورسب سے بڑی ضرورت رہا ہے ۔ ہر کوئی آڑے وقت کے لیے پیسہ پیسہ جوڑ کر سنبھال کر رکھتا ہے اور اس پر سانپ بن کر بیٹھا رہتا ہے کیونکہ یہی یقین غالب ہوتا ہے کہ یہ پیسہ ہی کام آئے گا نہ کوئی عزیز ....نہ رشتہ دار ....نہ ہی کوئی دوست یا ساتھی ۔ رشتوں سے اعتماد جو اٹھ گیا ہے ۔
تو جناب! پیسے پر یقین ہے مگر انسانوں پر اعتماد نہیں ۔ یہیں سے رشتہ ناتے کمزور ہو جاتے ہیں ۔ ہم آگے نکل جاتے ہیں اور ہمارے پیارے کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں یا وہ ہمیں پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نکل جاتے ہیں ۔ پھر ہر ایک ، بے رحم زندگی کے کٹھن راستوں پر اکیلا، تنہا ہنستا روتا ، اپنا اور اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائےہوئے ہانپتا کانپتا چلتا جاتا ہے ۔ بعض ایسے بد بخت بھی ہوتے ہیں جو تن تنہا اس سفر کی مشکلات نہیں سہہ پاتے اور بیچ راہ میں ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔ اب اس موقع پر ساری سوسائٹی، جس نے اسے تنہائی کے جھولے میں ڈال کر موت کی لوری سنا کر سلا دیا ہوتا ہے، خود کشی کے فعل کی سخت مذ مت کرکے............ دورجدید کی مادہ پرستی اور بے حسی کو........... زمانہ کی خرابی کو.......... گالیاں دے کر اور اس بد قسمت انسان پر لعنت ملامت کر کے اس جرم سے بری الذمہ ہونے میں ہر بار کامیاب ہو جاتی ہے لیکن یہ جان رکھیں کہ پوچھ ہوگی اور ضرور ہوگی ۔
محترم قارئین کرام! زندگی میں ضرور آگے بڑھیں، بڑھتے جائیں مگر کبھی کبھار پیچھے مڑکر دیکھا کریں کہ کچھ پیچھے رہ تو نہیں گیا ۔
اور ایک آخری بات ۔ وہ یہ کہ ہمارا تعلق اپنے خالق و مالک کے ساتھ مضبوط ہونا چاہیے ۔ وہ عظیم ہستی تو ہر جگہ موجود ہے ۔ بس اس کے موجود ہونے کا احساس ساتھ رکھنا چاہیے ۔ خیال رکھیں کہ اس فانی دنیا کے جھمیلوں میں یہ احساس کہیں پیچھے نہ رہ جائے..........کہیں کھو نہ جائے ۔ ورنہ ہم سب زندگی کی بند گلی میں بے یارومددگار ایسے ہی حیران و پریشان کھڑے ہوں گے جیسا کہ میں آج اس بھیڑ میں ہیبت زدہ صورت بنا کر روڈ پر کھڑی اپنا کلچ ڈھونڈنے میں مگن ہوں ...
اللہ اکبر .....شکر ہے، یہ رہا، مل گیا ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔
سحرش سحر
آخری تدوین: