مدیحہ گیلانی
محفلین
مژدہ فنائے دہر کا پہنچے گا صور سے
آسودگانِ خاک جب اٹھیں گے طور سے
بندوں کی جان لیتی ہے کس مکر و زور سے
اللہ کی پناہ بتوں کے فتور سے
عاشق کی آنکھ نم بھی اگر ہو تو خوف ہے
اک بار اٹھ چکا ہے یہ طوفاں تنور سے
ہوتی چلی ہے ہجر میں خُو اضطراب کی
آنے لگا ہے چین دلِ نا صبور سے
موسیٰ کے ہاتھ میں نہیں جو دل میں نور ہے
روشن عجب چراغ ہوا شمعِ طور سے
مر کر بھی اہلِ دہر ہیں اس چال سے خراب
دھوکے میں حشر کے نکل آئے قبور سے
آنکھیں کھلی ہوئی ہیں تو پھر یا چھپا رہے
دنیا کی سیر کرتے ہیں ہم چشم کور سے
کھچ کر جہاں کو اپنی طرف کھینچتےہیں
بت تاثیرِ عجز کرتے ہیں پیدا غرور سے
جنت کہا تو اس نے گلی سے دیا نکال
جو کچھ ہوا ہوا ہے ہمارے قصور سے
تیرے شہیدِ ناز کو جنت میں جا ملے
دھوتے ہیں اس کے زخم شرابِ طہور سے
کچھ مرگ و زیست عاشقِ غم دیدہ کی نہ پوچھ
یاں عمر بھاگتی ہے سنین و شہور سے
ہستی میں کیا ملا تھا بجز رنج و یاس کے
اب کیا کریں گے جاگ کے شورِ نشور سے
رہبر ہے میرے ساتھ مگر ہے ڈرا ہوا
اس کوچے کے نشان بتاتا ہے دور سے
اچھی طرح گذر نہ سکے گی شبِ فراق
مجھ پر بری بنے گی دلِ نا صبور سے
جاں اپنی لب پر آئی، نہ آیا سوالِ وصل
دشوار مدعا طلبی ہے غیور سے
موسیٰ سے کیف بادۂ توحید کا نہ پوچھ
لکنت زباں میں آ گئی جس کے سرور سے
اس دن کو رات کوئی نہیں اے شبِ فراق
وابستہ یہ امید ہے روزِ نشور سے
سالکؔ گناہ گار و خطا کار ہوں، ولے
دل کچھ قوی ہے رحمتِ ربّ غفور سے
قربان علی بیگ سالکؔ
آسودگانِ خاک جب اٹھیں گے طور سے
بندوں کی جان لیتی ہے کس مکر و زور سے
اللہ کی پناہ بتوں کے فتور سے
عاشق کی آنکھ نم بھی اگر ہو تو خوف ہے
اک بار اٹھ چکا ہے یہ طوفاں تنور سے
ہوتی چلی ہے ہجر میں خُو اضطراب کی
آنے لگا ہے چین دلِ نا صبور سے
موسیٰ کے ہاتھ میں نہیں جو دل میں نور ہے
روشن عجب چراغ ہوا شمعِ طور سے
مر کر بھی اہلِ دہر ہیں اس چال سے خراب
دھوکے میں حشر کے نکل آئے قبور سے
آنکھیں کھلی ہوئی ہیں تو پھر یا چھپا رہے
دنیا کی سیر کرتے ہیں ہم چشم کور سے
کھچ کر جہاں کو اپنی طرف کھینچتےہیں
بت تاثیرِ عجز کرتے ہیں پیدا غرور سے
جنت کہا تو اس نے گلی سے دیا نکال
جو کچھ ہوا ہوا ہے ہمارے قصور سے
تیرے شہیدِ ناز کو جنت میں جا ملے
دھوتے ہیں اس کے زخم شرابِ طہور سے
کچھ مرگ و زیست عاشقِ غم دیدہ کی نہ پوچھ
یاں عمر بھاگتی ہے سنین و شہور سے
ہستی میں کیا ملا تھا بجز رنج و یاس کے
اب کیا کریں گے جاگ کے شورِ نشور سے
رہبر ہے میرے ساتھ مگر ہے ڈرا ہوا
اس کوچے کے نشان بتاتا ہے دور سے
اچھی طرح گذر نہ سکے گی شبِ فراق
مجھ پر بری بنے گی دلِ نا صبور سے
جاں اپنی لب پر آئی، نہ آیا سوالِ وصل
دشوار مدعا طلبی ہے غیور سے
موسیٰ سے کیف بادۂ توحید کا نہ پوچھ
لکنت زباں میں آ گئی جس کے سرور سے
اس دن کو رات کوئی نہیں اے شبِ فراق
وابستہ یہ امید ہے روزِ نشور سے
سالکؔ گناہ گار و خطا کار ہوں، ولے
دل کچھ قوی ہے رحمتِ ربّ غفور سے
قربان علی بیگ سالکؔ