ذاتی کتب خانہ مکاتیبِ خضر از محمد خالد اختر

عبد العزیز خالد کے نام

بھائی، اس کلبہ احزان میں تین شاعر ایسے ہوئے ہیں کہ میں نے ان کو سلام کیا۔ دو خلدِ بریں کو کوچ کر چکے۔ ایک ابھی جیتا ہے ۔ وہ پہلے دو غالب اور اقبال تھے، تیسرے تم ہو۔ اللہ اللہ…


اردو زبان کے شیر مصفیّٰ میں قندِ فارس و ہریرہ بلادِ عرب کو جس ارزانی سے تم نے گھولا ہے، سزاوارِ ستائش ہے۔ اساتذہ مسلم الثبوت میں اس نوعمری میں جگہ پانا تمہارا حصہ ہوا۔ جن اشخاص کو بہرہ زبانِ عربی سے نہیں، ان کو البتہ مقصود تمہارے کلام کا شتابی سے فہم میں نہیں آتا۔


فقیر نے اپنے بچپنے میں مولوی کرامت اللہ صاحب سے قرآن مجید مع ترجمہ کے پڑھا۔ تھوڑی شُد بُد عربی زبان سے اس کے طفیل ہوئی، مگر جو کچھ سیکھا بوجہ عارضۂ نسیان اب حافظے میں نہیں۔ ہر چند کہ کلہم کلام تمہارے کو سمجھ نہیں پاتا، اس کی شوکتِ الفاظ اور فصاحتِ بیان کا قائل ضرور ہوں۔ کتابیں تمہاری اسی خاطر پسندیدۂ جمہور ہوئیں اور تمہاری حیاتِ جاودانی کی ضامن۔


یاد ہوگا، سالِ گزشتہ تمہارے محکمہ کے دفتر میں تم سے ملاقات ہوئی۔ فقیر تب شہرِ آشوب کراچی میں ایک مہاجن آدمجی سے بتوسط انجمنِ مصنفین پانچ ہزار روپے کی ہنڈی اور ایک سند وصول کرنے پہنچا تھا۔ فقیر تمہاری صحبت میں شاد و خرسند ہوا۔ اگلے دن تم سے ملنے کو تمہارے دولت خانے پر حاضر ہوا۔ تمہاری شیرینی گفتار کے وصف میں کیا کہوں۔ مزے آگئے۔ دیکھ کر حیران ہوا کہ اس فقیر کے طور پر فرش پر بستر جمایا ہے۔ لکھنا پڑھنا وہیں ہوتا ہے۔ کہیں آتے جاتے نہیں۔ سرہانے کی جانب لغت عربی و فارسی کی موٹی ضخیم کتب ایک صف میں آراستہ ہیں۔ جاتے ہوئے ایک ڈھیر اپنی تصنیفات کا تم نے بندے کی خاطر جمع کے لیے مرحمت فرمایا۔ ایک من وزنی ہوگا۔


صاحب اس روانی اور قادرالکلامی سے چشمہ سخن سرابی جاری رہا تو عجب نہیں وقتِ وصال تلک کم و بیش ڈھائی سو دیوان پانچ پانچ سو صفحے کے مکمل کرجاؤ۔ عہدِ حاضر میں سکندرِ قلمروئے سخن وری و لغت دانی تم ہو۔ حضرت علامہ مجتہد الدہر، سیدنا و مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے یونہی تم کو اپنے سینے سے نہیں لگایا۔


یہ تو تھی ہنسی۔ بندہ سچ مچ تمہارے اوصافِ حمیدہ کا گرویدہ ہوکر لوٹا۔ جو کراچی سے آتا ہے یا نہیں آتا، اُس کے رو برو تمہاری مزے کی صحبت، اور جودتِ تخیّل اور حقیقی لگن کی تحسین کرتا ہوں۔ ہو بھی اس لائق۔ اساطیر یونان کی ہم کلامی بعینہٖ اہلِ یونان کی بولی ٹھولی میں دودو درماں کے مدارج اظہار، ہجر و وصال کی روئداد ِ جگر پاش، رزم و بزم کی مرقع بیانی، شاہ دوجہاں حضرت محمد مصطفیٰ کی مدحتِ دلپذیر، ۔۔۔ سب کچھ تمہاری تصنیفات کا مضمون ہے۔ تمثیل نگاری کے خاتم تم ہو۔ صحبت تمہاری پھر کب میسر آئے گی۔۔۔؟


والسلام مع الاکرام
 
مکاتیبِ خضر
از:: محمد خالد اختر

انتظار حسین کے نام۔۔۔۔

نور چشم، راحتِ جان انتظار حسین۔۔۔۔!

پہلے ایک حکایت سنو!۔۔۔ غدرِ اوّلین سے پہلے کی بات ہے، چچا سام زاد الطافیم کی سلطنت میں ایک شخص تھا، رپ وین ونکل، یہ صاحب تھے بالکل نکھٹو!ایک ہی کاہل، لال بھجکڑ، تگ و دوئے روزگار سے گریزاں، گویا کہ ان کی طبیعت قدرے فقیر خضڑ کی طرح آزاد تھی۔ سب ذمہ داریاں گھر کی اپنی زوجہ کے سر ڈال رکھی تھیں۔ خود قصبےکے بے کار لوگوں و فاتر العقل اصحاب کے ساتھسارا دن گپ بازی کرتے اور ایک پہر دن ڈھلے سے وہاں کے میخانے میں ڈیرہ جماتے تھے۔ نیک سیرت، خوش طبع، دوستوں پر جان چھڑکنے والے، ہر ایک کی مدد کو تیار، اطفال ان کے شیدا اور عاشق یوں تھے کہ ان کے کھلونے ٹوٹتے تو یہ رپ وین ونکل ان کی مرمت و درستی کردیتے۔ زوجہ میاں ونکل کی اسے نکما سمجھتی۔ صبح سے لیکر شام تک اسے لعن طعن کرتی رہتی۔ لیکن بگڑے کہیں سنورتے ہیں۔ وہ اپنے کان لپیٹ ، چپ چاپ اپنے کتے کو ہمراہی میں لیے، بندوق کندھے پر ڈال، خرگوش اور تیتر پکڑنے نکل جاتے۔ ایک دن وہ معمول سے کچھ دور نکل گئے کہ کسی نے پکارا: رپ وین ونکل ، اجی رپ وین ونکل! کلہ کوہ سے نیچے دیکھا تو آواز دینے والے کو ایک باریش مردِ بزرگ کوتاہ قد پایا۔ پشت پر ایک پیپا لادے، وہ متکلم ہوئے؛ ’’جی رپ! ذرا مدد کیجیے گا!’’رپ وین ونکل تو ہر کسی کی مدد پر تیار ہوجاتے تھے،،

انہوں نے پیپے کو اپنی پشت پر منتقل کیا اور کہنے لگے، ’’ کہاں جائیے گا؟‘‘ ۔ ’’پیچھے پیچھے چلتے آؤ۔‘‘ وہ پہنچے ایک وادی میں گھاس جہاں چھوٹی اور گھنی تھی۔ وہاں بسیار اور ویسے ہی باریش مردانِ بزرگ بیٹحے تھے۔

سر پر کلاہِ سرخ، بے بٹنوں کے کوٹ اور چڑھے ہوئے پاجامے تن پر پاؤں میں نقرئی ہکمونے لگے جوتے ، وہ فائن پنز کھیلتے تھے۔ گویا اہلِ ولایت کا گلی ڈنڈا۔ رپ وین ونکل قریب آیا، تو انہوں نے کھیل روکا۔ اور ایک مردِ بزرگ نے بڑے بڑے آبخوروں کو پیپے میں سے بھرا اور رپ کو اشارہ کیا اس معنی کا کہ ان سب کو دے۔ مردانِ بزرگ خاموشی اور سنجیدگی سے آب خورے چڑھا پھر منہمک ہوئے اپنے کھیل میں۔ رپ وین ونکل نے جو ایک آب خورے سے چکھا تو اس سے رہا نہ گیا۔ پیاس بھی لگی تھی، سو بہت سے آبخورے خالی کرڈالے۔ اب آنکھیں ہوئیں بوجھل مارے نیند کے ہوش و حواس قائم رکھنے کی سعیٗ بے حاصل کی۔ مگر پھر نیند نے غلبہ کرلیا۔ نیچے لڑھے، خرانٹے لینے لگے۔۔۔ آنکھ کھلی تو ایک بڑ کے نیچے اپنے کو پایا۔ مردانِ بزرگ اور ان کا فاٹن پن کا کھیل غائب! دن چڑھا ہوا تھا اور طائرانِ خوش الحان پیڑوں میں نغمہ ریز تھے۔ سوچا ساری رات سویا رہا ہوں۔ کتے کو ڈھونڈا، وہ غائب، بندوق اوزارِ کہنہ و زنگ آلودہ بنی تھی۔ کوہ سے اترے ، قصبے میں آئے۔ وہاں لوگوں کے لباس بدلے ہوئے۔ کسی کو جانتے نہیں۔ خود کو ملاحظہ کیا تو حیران ہوئے کہ داڑھی گز بھر لمبی زمین کو بوسہ دیتی ہے۔ ۔۔۔ قصہ مختصر ، بیس برس تک سوئے رہے اور جاگے تو ایسی دنیا میں کہ اس کی بوالعجبی ونیرنگی میں کھو گئے۔۔۔!



صاحب! یہ رپ وین ونکل کی واردات ایک طرح تم پر بھی گزری کہ اس بستادصدی کے شہر لاہور میں حضرت جانِ عالم واجد علی شاہ کے لکھنئو میں جیتے ہو۔ نثر تمہاری پڑھو تو میر امن دہلوی اور رجب علی سرور کی نثر آمیختہ کا مزہ لو۔ لاہور نامے کو ملاحظہ کرو تو گویا قدیم لکھنئو کے گلی کوچوں، ملیوں ٹھیلوں ، عاشوروں اور مجالس کی سیر کرو۔ راوی پر لے چلو تو وہ گومتی لگے۔ روایت کا دامن مضبوطی سے تھامے ہو، بلکہ تحفظِ تمدنِ قدیم کے علمبردارِ خشمناک ہو۔ آپ کو کون سمجھائے کہ لاہور لکھنئو نہیں ہے اور لکھنئو بھی اب اس ڈھنگ سے نہیں بستا جس کا تم خیال کرتے ہو۔ جس ازمنہ وسطیٰ کی تمہاری تحریر غماز ہے اور اب فلک کے دوران سے فکر و نظرِ انسانی میں تغیراتِ انقلاب آفریں رونما ہوئے ، تمدن و معاشرت و تہذیب کچھ کی کچھ ہوئی، اب زمانہ کے طور دوسرے ہیں۔ نگارشِ نثر و نظم کے رنگ بدلے آہنگ بدلے۔ تصور عالم و کائینات و متقاضاتِ نشری اب اور ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
عبد العزیز خالد کے نام

بھائی، اس کلبہ احزان میں تین شاعر ایسے ہوئے ہیں کہ میں نے ان کو سلام کیا۔ دو خلدِ بریں کو کوچ کر چکے۔ ایک ابھی جیتا ہے ۔ وہ پہلے دو غالب اور اقبال تھے، تیسرے تم ہو۔ اللہ اللہ…


اردو زبان کے شیر مصفیّٰ میں قندِ فارس و ہریرہ بلادِ عرب کو جس ارزانی سے تم نے گھولا ہے، سزاوارِ ستائش ہے۔ اساتذہ مسلم الثبوت میں اس نوعمری میں جگہ پانا تمہارا حصہ ہوا۔ جن اشخاص کو بہرہ زبانِ عربی سے نہیں، ان کو البتہ مقصود تمہارے کلام کا شتابی سے فہم میں نہیں آتا۔


فقیر نے اپنے بچپنے میں مولوی کرامت اللہ صاحب سے قرآن مجید مع ترجمہ کے پڑھا۔ تھوڑی شُد بُد عربی زبان سے اس کے طفیل ہوئی، مگر جو کچھ سیکھا بوجہ عارضۂ نسیان اب حافظے میں نہیں۔ ہر چند کہ کلہم کلام تمہارے کو سمجھ نہیں پاتا، اس کی شوکتِ الفاظ اور فصاحتِ بیان کا قائل ضرور ہوں۔ کتابیں تمہاری اسی خاطر پسندیدۂ جمہور ہوئیں اور تمہاری حیاتِ جاودانی کی ضامن۔


یاد ہوگا، سالِ گزشتہ تمہارے محکمہ کے دفتر میں تم سے ملاقات ہوئی۔ فقیر تب شہرِ آشوب کراچی میں ایک مہاجن آدمجی سے بتوسط انجمنِ مصنفین پانچ ہزار روپے کی ہنڈی اور ایک سند وصول کرنے پہنچا تھا۔ فقیر تمہاری صحبت میں شاد و خرسند ہوا۔ اگلے دن تم سے ملنے کو تمہارے دولت خانے پر حاضر ہوا۔ تمہاری شیرینی گفتار کے وصف میں کیا کہوں۔ مزے آگئے۔ دیکھ کر حیران ہوا کہ اس فقیر کے طور پر فرش پر بستر جمایا ہے۔ لکھنا پڑھنا وہیں ہوتا ہے۔ کہیں آتے جاتے نہیں۔ سرہانے کی جانب لغت عربی و فارسی کی موٹی ضخیم کتب ایک صف میں آراستہ ہیں۔ جاتے ہوئے ایک ڈھیر اپنی تصنیفات کا تم نے بندے کی خاطر جمع کے لیے مرحمت فرمایا۔ ایک من وزنی ہوگا۔


صاحب اس روانی اور قادرالکلامی سے چشمہ سخن سرابی جاری رہا تو عجب نہیں وقتِ وصال تلک کم و بیش ڈھائی سو دیوان پانچ پانچ سو صفحے کے مکمل کرجاؤ۔ عہدِ حاضر میں سکندرِ قلمروئے سخن وری و لغت دانی تم ہو۔ حضرت علامہ مجتہد الدہر، سیدنا و مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے یونہی تم کو اپنے سینے سے نہیں لگایا۔


یہ تو تھی ہنسی۔ بندہ سچ مچ تمہارے اوصافِ حمیدہ کا گرویدہ ہوکر لوٹا۔ جو کراچی سے آتا ہے یا نہیں آتا، اُس کے رو برو تمہاری مزے کی صحبت، اور جودتِ تخیّل اور حقیقی لگن کی تحسین کرتا ہوں۔ ہو بھی اس لائق۔ اساطیر یونان کی ہم کلامی بعینہٖ اہلِ یونان کی بولی ٹھولی میں دودو درماں کے مدارج اظہار، ہجر و وصال کی روئداد ِ جگر پاش، رزم و بزم کی مرقع بیانی، شاہ دوجہاں حضرت محمد مصطفیٰ کی مدحتِ دلپذیر، ۔۔۔ سب کچھ تمہاری تصنیفات کا مضمون ہے۔ تمثیل نگاری کے خاتم تم ہو۔ صحبت تمہاری پھر کب میسر آئے گی۔۔۔؟


والسلام مع الاکرام
ماشاءاللہ بہت خوب ، سبحان اللہ سبحان اللہ۔۔۔۔
 
Top