نور وجدان
لائبریرین
شام کا وقت تھا ،جس پر آہستہ آہستہ رات چھا رہی تھی اوربادل سر پر منڈلارہے تھے اور بادلوں کا یونس کی روح کو چھو جانا تنہائی کی منافی کر رہا تھا۔ شام سے رات کا ڈھلتا وقت اور چھاتا ہوا اندھیرا اس بات کو عیاں کر رہا تھا اس کے ساتھ اب کوئی بھی نہیں ۔ وہ بھاگتا رہا اور بھاگتے بھاگتے اس کی رفتار اتنی تیز ہوگئی جتنی کسی روح کی ہوسکتی تھی ۔کبھی جنگل، کبھی صحرا تو کبھی پہاڑوں میں وہ اپنے قبیلے والوں کو تلاش کر رہا تھا ۔شاید کوئی اس کا ہمدم ، ساتھی اس کو مل جائے۔ وہ بھوک اور پیاس سے عاری سفر پر رواں دواں نہ جانے کس کو ڈھونڈ رہا تھا۔اب وہ کسی قبرستان میں داخل ہوا ۔ یہ عام قبرستانوں سے الگ تھا۔ کچھ قبریں سرخ چمکتی روشن تھیں ان کی آب و تاب اس کے لیے نئی نہیں تھی مگر اس نے جیسے ہی سُرخ حصے پر قدم رکھا اس کو ایک جھٹکا سا لگا۔ جیسے کسی نے اس کو پیچھے دھکیل دیا ہو۔ کچھ قبریں سبز رنگ کی تو کچھ سفید رنگ کی تھیں باوجود کوشش کہ وہ وہاں پر بھی جا نہ پایا۔ کچھ قبریں سیاہ تھیں وہ ان کے دہانے پر کھڑا تھا اور پہچان کر رہا تھا کہ دنیا والوں کی طرح مُردوں کی قبروں کی تفریق بھی ہوتی ہے ۔باغی تو وہ شروع سے تھا اس کے اندر تفریق کے پکتے الاؤ نے اس کو اپنے ٹھکانے سے دربدر کر دیا تھا۔ سیاہ قبروں کا مالک ابھی ان کو چھو نہیں سکتا تھا۔
یونس خوابگاہ میں بیڈ سے ہڑ بھڑا کر اُٹھا اور اطراف میں دیکھا کہیں وہ حقیقتا قبرستان میں نہیں ۔ سائیڈ ٹیبل سے پانی گلاس میں ڈاال کر غٹا غٹ پی گیا ۔ سرخ ، سیاہ قبریں۔۔۔ یہ کیا تھا ! کیوں یہ خواب مسلسل اس کی روح کا عذاب بن گیا تھا۔ وہ بستر سے اُٹھ کر کمرے سے منسلک لان میں گیا ۔ شاید وہ یقین کرنا چاہ رہا تھا آسمان پر موجود بادل اس کو چھو تو نہیں رہے ۔ لان میں موجود کرسی پر بیٹھ کر ہم کلامی کرنے لگا۔
زندگی ایک کھیل ہے۔۔۔۔
کھیل میں پا کر کھویا۔۔۔۔؟
کھو کر میں نے پایا ہے۔۔۔
اب میں رو کیوں رہا ہوں۔۔!
کیوں میری آنکھ نم رہتی ہے ۔۔۔۔!
میرا چین قرار چھن گیا ہے!
یہ زندگی ۔۔۔عجائب خانہ ہے ، عجائب خانے میں میرا کام۔۔۔۔! میرا کام ختم۔۔ شاید میں ہونے اور نہ ہونے کے درمیان ہوں ۔۔۔۔ ہم کلامی کرتے کرتے نیم وا نے ماضی کے وہ در وا کیے جن کو وہ کبھی سوچنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔! مگر ۔۔۔! آج وہ احتساب کے عمل سے کیسے بچ سکتا تھا ۔اپنی کوتاہیاں ماننے کے بعد خسارہ یاد آتا ہے ۔ ماضی یاد آتا ہے ۔۔۔ماضی یاد کرکے وہ یہ لفظ بار بار کہ رہا تھا۔
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب !
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
یونس کو اپنے بیوی سے محبت تھی ۔ اس محبت میں اکثر وہ ماں کو جھڑک دیا کرتا تھا۔ماں کو وہ ''بے بے'' کہا کرتا تھا ۔اس وقت وہ تیش کے عالم میں ماں کو آواز دیے جا رہا تھا :
''بے بے ! ، بے بے " کدھر ہے تو !!! ''
وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں اس کو ڈھونڈ رہا تھا۔اب وہ ردی کباڑ والے کمرے میں گیا
''بے بے ، او بے بے کدھر مر گئی ہے تو ! ''
'' بے بے'' وہاں ہر لمبی تان کر سوئی ہوئی تھی ۔۔۔ یونس نے '' بے بے '' کو پھر آواز دی ۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھی پھر اپنے بیٹے کو دیکھ کر بہت خوش ہوگئی کہ اس کا جگر کا ٹکرا اس کے سامنے بیٹھا ہے۔ مگر یونس نے ''بے بے'' کو بالوں سے پکڑا اور گھسیٹ کر گھر کے دروازے تک لے گیا۔ وہ گرج کر بولا ''
بے بے'' تو نے آج پھر دیسی گھی چوری کیا ہے تجھے پتا ہے وہ آمنہ کے لیے تھا اب میری بس سے تو باہر ہے ۔تو اپنی عادتوں سے باز نہیں آتی ، چل ۔۔۔ چل نکل ! نکل اور اب دوبارہ نہ تو آنا۔۔۔!! ''
اس کی ماں جس کے پاؤں میں لنگ تھا اس کو چلتی ایک گدھا گاڑی پر بٹھایا اور گاڑی والے کو کچھ پیسے دیے ۔یونس ہمیشہ اس طرح کیا کرتا جب ماں سے تنگ آجاتا بہن کے گھر بجھوا دیتا ۔'' بے بے'' مجبور ہو کر دوبارہ یونس کے پاس آجاتی تھی ۔ ریڑھی پر بیٹھے آنسو اس کی آنکھ بگھوتے ہوئے جھریوں سے جگہ بناتے بناتے دامن بھگو رہے تھے ۔۔۔!!
'' اولاد فتنہ ہے ایسا فتنہ جو نہ جینے دیتا ہے نہ مرنے ''
بے بے سوچ رہی تھی میں اپلے تھاپ تھاپ کر اپنی روٹی کماتی کھاتی ہوں میں نے یونس کو کبھی تنگ نہیں کیا ۔ہر دفعہ مجھے گھر سے نکال دیتا ہے ۔اب میں اس کی شکل کبھی نہیں دیکھوں گی !!
آج عید کا دن تھا یونس اپنی بیوی کے لیے سونے کی انگوٹھی لایا تھا ۔ آمنہ نے سونے کی چوڑیوں اور انگوٹھی کی فرمائش کی تھی ۔ اس نے بچت کرکے بیوی کو انگوٹھی تھمائی ۔ آمنہ پہلے پہل تو خوش ہوئی مگر جب انگوٹھی ہی کو صرف تحفہ پایا تو سیخ پا ہوگئ ۔غصے میں انگوٹھی اتار کر رکھ دی ۔ یونس دل مسوس کر رہ گیا شاید وہ اس قابل نہیں کہ اپنی بیوی کو خوش کر سکے ۔ پھر اس نے عیدی بچوں کو دی کچھ قصائی والے کو دیے ۔گوشت کو رشتے داروں میں تقسیم کرنے والا پڑا خراب ہو رہا تھا۔ مگر آمنہ اپنے کمرے سے نکلنے پر آمادہ نہ تھی ۔اس بات پر دونوں میں تکرار اتنی بڑھی کہ یونس کا ہاتھ اٹھتے اٹھتے رہ گیا۔ اسے مسجد کے امام کا خطبہ یاد آیا جس میں بیوی کے حقوق کے بارے میں لمبا چوڑا وعظ یاد آیا۔ یونس کو لگا سارا قصور اس کا ہے۔ اس نے ہمیشہ کی طرح آمنہ کی منت سماجت شروع کی اور وعدہ کیا اگلے ماہ اس کو سونے کی چین لے کر دے گا۔
'''روز بروز بڑھتی خواہشوں ۔۔۔' یونس تنہائی میں بیٹھے سوچ رہا تھا
''آخر کب تک خواہشوں کا گلہ گھونٹوں۔۔۔!! آمنہ سچی ہے میں اس کی خواہشات کی کب تک نفی کرتا رہوں گا !
یونس کو کچھ ماہ پہلے دوست کی طرف سے آفر یاد آگئی ۔۔۔ اس نے کبھی حرام کی کمائی کے بارے میں سوچا نہیں تھا ۔اب وہ پختہ ارادہ سے کہ وہ کل اس دوست کے پاس جائے گا ، سونے کے لیے خواب گاہ کی طرف روانہ ہوا۔ شاید ماں کا سایہ اس کے در و دیوار کو اداس کر رہا تھا اور یونس کو تاریک راہوں کا عادی ہونے جا رہا تھا۔
اگلے دن یونس نے بیوی سے کہا:
''وہ رات دیر سے آیا کرے گا بچوں کا خیال کر لینا۔۔۔
آج یونس کی منزل منڈی نہیں تھی ۔شہر سے دور کسی بوسیدہ مکان میں وہ داخل ہو جہاں پر اس نے ڈاکے ڈالنے کا دھندہ کیا جاتا تھا۔ اس گینگ کا سربراہ سے اس کا پرانا یارانہ تھا ۔ آج وہ بچپن کے ساتھی کے پاس تھا۔احمد نے موچھوں کو تاؤ دیا یونس کو اوپر سے نیچے دیکھا اور ستائشی نگاہ ڈال کر کہا:
'' تو تو بڑا خوبصورت ہوگیا ہے ، تو ڈاکے کا دھندہ نہ کر۔۔۔ خوبصورت بھی بکتی ہے ، یہ خوبصورتی عورت کی نہیں بلکہ مرد کی بھی بکتی ہے ''
قہقے لگاتے ہوئے پوچھا
'' کیا خیال ہے ترا ، ابھی ابھی اس دھندے میں کام ڈالا ہے ، تیرا نام ایسے تو یوسف نہیں ۔۔۔!! قسم سے انگلیاں ٹوٹ جائیں گی ۔۔۔!!
یونس دنگ رہ گیا آج سے پہلے اس نے کبھی اس نہج پر نہیں سوچا تھا ۔ کہتے ہیں موت کی نگری میں ایک دفعہ داخل ہو جاؤ تو واپسی ناممکن ہے اس طرح گناہ کی نگری میں واپسی کے سارے راستے تنگ ہوجاتے ہیں ۔یونس کی ایک رات کی کمائی ایک ماہ کی کمائی سے زیادہ تھی ۔اس نے بیوی کو کنگن لے کر دیے گھر جواہرات سے بھرتا گیا ، کچھ عرصے بعد ایک بڑے بنگلے میں منتقل ہوگیا ۔
یونس کو چار سال یہ دھندہ کرتے ہوگئے اب اس کو اس میں مزہ آنے لگا تھا۔ زندگی میں سکون آگیا تھا ۔بیوی کی محبت ماند پڑ گئ تھی ۔ بچوں سے لاتعلق ہوگیا تھا۔ زندگی میں شادی اور عورت کی حیثیت اس پر عیاں ہوگئ ۔عورت پیسے کی بھوکی ہے اور شادی گلے کا طوق ہے ۔ یونس آج اپنے اڈے پر تھا ۔ آج وہاں ایک نقاب پوش حسینہ آئی تھی ۔یونس نے اس کا نقاب اتارنا چاہا اس نے کہا
''یہاں نہیں ۔۔۔!
تو پھر کہاں۔؟
''تمہاری جنت میں''
وہ ہنستا رہا ،شراب کا ایک گلاس اتار کر گلا پھاڑ کر ہنسا اور کہا:
'' آو میری جنت میں چلو''
رات کے اندھیرا زیادہ تھا یا شراب کا نشہ ۔۔۔ اسے لگا اس نے اس حسینہ کو پہلے کہیں دیکھا ہے ۔مگر وہ اس کو نشے میں پہچان نہ پایا۔ جب وہ صبح اٹھا تو اس کو کنگن ملے وہ کنگن جو اس نے آمنہ کو دیے تھےاور وہ حسینہ غائب تھی ۔ جب وہ گھر پہنچا اس کو آمنہ نظر نہ آئی یونس کے ہاتھ میں کنگن تھے۔ کنگن اس کے ہاتھ سے گرے وہ اٹھانے کی ہمت نہ کر سکا جب اس نے آمنہ کو مردہ پایا۔ اس کا لٹکا ہوا پنکھے سے جسم ۔۔۔۔! یونس کی چیخیں نکلتے نکلتے رہ گئی ۔۔۔!
'' کیا آمنہ میرے تعاقب میں رہتی تھی ؟
آہ!!
ہائے افسوس !
میں اس کے ساتھ بھی انصاف نہیں کر سکا!
اس نے ایسا کیوں کیا میرے ساتھ ؟ ''
اس کے پاس سوچوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ان سوچوں کا جن کا کوئی حل نہیں تھا۔
یونس نے بیوی کو دفنایا،دفناتے ہوئے اسے اپنی ماں یادآئی ۔ وہ زندہ تو نہیں تھی اگر ہوتی تو کیا معاف کرے گی ؟ ۔ اور سوچنے لگا آمنہ کیا بخشی جائی گی ۔۔!!
''کاش ! وہ خود کشی نہ کرتی ۔۔۔۔ کاش ۔۔! '
اس نے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اسے بچوں میں آمنہ نظر آنے لگی ۔ وہ ان کو پیار کرنا چاہتا تھا اس کے دونوں بیٹے اس سے دور بھاگتے رہے ۔ بیٹے جوانی کی سرحد کو پار کر رہے تھے اور وہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا۔ اسے ڈر لگا کل جب یہ خودکفیل ہوں گے تو اس کا کیا حال کریں گے ۔ یونس کو یاد آیا اس نے ماں کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔ وہ ماں کی قبر پر جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔مگر وہ جانتا تک نہ تھا اس کی ماں کی قبر کس قبرستان میں ہے ۔
اولاد نے اس سے لاتعلقی اختیار کرلی تھی ۔ دونوں بیٹے اسے پہچانتے نہیں تھے اسے یاد آیا احمر اور زیان اس کو لپٹ کر کیسے'' بابا ''کہا کرتے تھے ۔ اب اس سے دھندہ کو چلانے کی اور ہمت نہ رہی اس کا ضمیر اس کے گلے کا طوق بن گیا تھا ۔
وہ دن کاٹ رہا تھا ، تمام اثاثے بکتے گئے اور کچھ سال گزر گئے۔ اسکی صحت خراب رہنے لگی ۔ اس کے خواب میں آمنہ تو کبھی ماں آتی ۔ وہ اکثر خواب میں قبرستان دیکھا کرتا تھا جس میں اس رنگ برنگی قبریں نظر آتی وہ ماں کو ڈھونڈنا چاہتا ان میں ایک سرخ رنگ کی قبر تھی وہ ادھر بڑھتا کرنٹ لگتا پیچھا ہٹ جاتا ۔ پھر سیاہ قبر کی طرف جانا چاہتا تو آواز آتی
''ابھی وقت باقی ہے ۔۔۔ابھی انتظار کر۔۔۔۔!!!
مگر اس کی کفالت تو درکنار اس کو گھر میں رکھنا نہیں چاہتے تھے . اس کو گھر سے نکال نہیں سکتے تھے گھر یونس کے نام پر تھا . اب اس کو احساس ہو رہا تھا اولاد کی لاتعلقی ، اس کا روکھا رویہ والدین کے لیے کس قدر اذیت کا باعث ہوتی ہیں . احمد اور زیان کو جب سے باپ کے دھندے کے بارے میں پتا چلا تھا . انہوں ے اس سے کنارا کر لیا تھا . اس کو نزلہ اور بخار رہنے لگا تھا کبھی کبھار پورا جسم جھٹکے لیتا رہتا جیسے کوئی اس کو موت کی وادی میں دھکیل رہا ہو . ایک دن ہمت کرکے اس نے ڈاکڑ کے پاس جانے کا سوچا . ڈاکٹر نے مرض کی تشخیص سے پہلے اس کو بلڈ ٹیسٹ کے لیے کہا . جب رپورٹ اس کے سامنے تھا . اس کو لگا زمین ایک دفعہ پھر اس کو نگلنا چاہ رہی ہے .
'' کاش ! زمین پھٹ سکتی اور میں اس کی گہرائیوں میں کھو جاتا . میں زمین کے اوپر رہنے کے قابل نہیں ہوں "
۔
""میں زندہ نہیں رہنا چاہتا ...! میری زندگی تو تھوڑی سی رہ گئی مگر میں بچوں کے رحم و کرم پر نہیں گزار سکتا ...! ان کی تحقیر آمیز نظروں کو برداشت نہیں کر سکتا ..!
""ہاں ! میں خود کو ختم کر سکتا ہوں .....! یہ سب سے آسان حل ہے ..... مجھے دنیا کا سامنا نہیں کرنے پڑے گا ... مجھے فرار چاہیے ...! مجھے پناہ چاہیے ..."
""فرار....فرار فرار .....بس فرار.......؎ؔ""
اس نے بیڈ کے سائید ٹیبل کھولا .. اس میں اپنا ریوالور اٹھایا ..اور اونچا اونچا کہنے لگا:
"یونس ...! یونس....تجھے فرار چاہیے ... لے میں تجھے پناہ دیتا ہوں ، آ .. آ جا ! یونس موت کی وادی میں...! جلدی کر ... اس سے پہلے لے فرار کے سب در بند ہوجائے ...آ جا .. یونس "
وہ یہ ٹوٹے پھوٹے لفظ ریوالور کن پٹی پر رکھے کہے جا رہا تھا .... اچانک دھماکہ ہوا...
یونس زمین پر جا گرا....! اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں ..ان کھلی آنکھوں سے وہ شہدا کا مشروب نہیں پی رہا تھا کہ اس کی اذیت کم ہو جاتی بلکہ وہ تو ایک منظر دیکھ رہا تھا .. اس کا جسم ساکت تھا .. روح دل میں جکڑی ہوئی نکل رہی تھی .. وہ منظر کیا تھا ..وہی خواب... وہی جو اکثر وہ دیکھا کرتا تھا .
موسم میں خنکی تھی ہر طرف سرد لہریں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں جیسے روحیں ایک دوسرے سے باتیں کر رہی تھیں ۔ یونس ادھر سے بھاگنا چاہ رہا تھا اجل جس کو ایک دفعہ تھام لے اس کی جائے مقام دنیا نہیں رہتی ۔ اس کے سامنے وہی قبرستان تھا جس میں رنگ برنگی قبریں تھیں وہ آج سرخ قبر کی طرف بڑھا اس کو ماں کو چہرا نظر آیا مگر ماں نے اس سے منہ پھیر لیا ۔ پھر سیاہ قبروں والے حصے کی طرف بڑھا وہاں پر اس کی بیوی اس سے نالاں کھڑی تھی ۔اس کی آنکھوں میں کوئی شکوہ نہ شکایت تھی بس دکھ کی ایک تحریر تھی ۔ ان قبروں میں وہ تمام روحیں تھیں جو خودکشی کرکے یہاں پہنچی تھیں ۔ اس لگا کوئی آواز اسے یہاں آنے سے روکے گی مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اس نے جیسے ہی قدم بڑھایا وہاں پر ایک قبر نمودار ہوگئی
یونس خوابگاہ میں بیڈ سے ہڑ بھڑا کر اُٹھا اور اطراف میں دیکھا کہیں وہ حقیقتا قبرستان میں نہیں ۔ سائیڈ ٹیبل سے پانی گلاس میں ڈاال کر غٹا غٹ پی گیا ۔ سرخ ، سیاہ قبریں۔۔۔ یہ کیا تھا ! کیوں یہ خواب مسلسل اس کی روح کا عذاب بن گیا تھا۔ وہ بستر سے اُٹھ کر کمرے سے منسلک لان میں گیا ۔ شاید وہ یقین کرنا چاہ رہا تھا آسمان پر موجود بادل اس کو چھو تو نہیں رہے ۔ لان میں موجود کرسی پر بیٹھ کر ہم کلامی کرنے لگا۔
زندگی ایک کھیل ہے۔۔۔۔
کھیل میں پا کر کھویا۔۔۔۔؟
کھو کر میں نے پایا ہے۔۔۔
اب میں رو کیوں رہا ہوں۔۔!
کیوں میری آنکھ نم رہتی ہے ۔۔۔۔!
میرا چین قرار چھن گیا ہے!
یہ زندگی ۔۔۔عجائب خانہ ہے ، عجائب خانے میں میرا کام۔۔۔۔! میرا کام ختم۔۔ شاید میں ہونے اور نہ ہونے کے درمیان ہوں ۔۔۔۔ ہم کلامی کرتے کرتے نیم وا نے ماضی کے وہ در وا کیے جن کو وہ کبھی سوچنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔! مگر ۔۔۔! آج وہ احتساب کے عمل سے کیسے بچ سکتا تھا ۔اپنی کوتاہیاں ماننے کے بعد خسارہ یاد آتا ہے ۔ ماضی یاد آتا ہے ۔۔۔ماضی یاد کرکے وہ یہ لفظ بار بار کہ رہا تھا۔
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب !
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
یونس کو اپنے بیوی سے محبت تھی ۔ اس محبت میں اکثر وہ ماں کو جھڑک دیا کرتا تھا۔ماں کو وہ ''بے بے'' کہا کرتا تھا ۔اس وقت وہ تیش کے عالم میں ماں کو آواز دیے جا رہا تھا :
''بے بے ! ، بے بے " کدھر ہے تو !!! ''
وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں اس کو ڈھونڈ رہا تھا۔اب وہ ردی کباڑ والے کمرے میں گیا
''بے بے ، او بے بے کدھر مر گئی ہے تو ! ''
'' بے بے'' وہاں ہر لمبی تان کر سوئی ہوئی تھی ۔۔۔ یونس نے '' بے بے '' کو پھر آواز دی ۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھی پھر اپنے بیٹے کو دیکھ کر بہت خوش ہوگئی کہ اس کا جگر کا ٹکرا اس کے سامنے بیٹھا ہے۔ مگر یونس نے ''بے بے'' کو بالوں سے پکڑا اور گھسیٹ کر گھر کے دروازے تک لے گیا۔ وہ گرج کر بولا ''
بے بے'' تو نے آج پھر دیسی گھی چوری کیا ہے تجھے پتا ہے وہ آمنہ کے لیے تھا اب میری بس سے تو باہر ہے ۔تو اپنی عادتوں سے باز نہیں آتی ، چل ۔۔۔ چل نکل ! نکل اور اب دوبارہ نہ تو آنا۔۔۔!! ''
اس کی ماں جس کے پاؤں میں لنگ تھا اس کو چلتی ایک گدھا گاڑی پر بٹھایا اور گاڑی والے کو کچھ پیسے دیے ۔یونس ہمیشہ اس طرح کیا کرتا جب ماں سے تنگ آجاتا بہن کے گھر بجھوا دیتا ۔'' بے بے'' مجبور ہو کر دوبارہ یونس کے پاس آجاتی تھی ۔ ریڑھی پر بیٹھے آنسو اس کی آنکھ بگھوتے ہوئے جھریوں سے جگہ بناتے بناتے دامن بھگو رہے تھے ۔۔۔!!
'' اولاد فتنہ ہے ایسا فتنہ جو نہ جینے دیتا ہے نہ مرنے ''
بے بے سوچ رہی تھی میں اپلے تھاپ تھاپ کر اپنی روٹی کماتی کھاتی ہوں میں نے یونس کو کبھی تنگ نہیں کیا ۔ہر دفعہ مجھے گھر سے نکال دیتا ہے ۔اب میں اس کی شکل کبھی نہیں دیکھوں گی !!
آج عید کا دن تھا یونس اپنی بیوی کے لیے سونے کی انگوٹھی لایا تھا ۔ آمنہ نے سونے کی چوڑیوں اور انگوٹھی کی فرمائش کی تھی ۔ اس نے بچت کرکے بیوی کو انگوٹھی تھمائی ۔ آمنہ پہلے پہل تو خوش ہوئی مگر جب انگوٹھی ہی کو صرف تحفہ پایا تو سیخ پا ہوگئ ۔غصے میں انگوٹھی اتار کر رکھ دی ۔ یونس دل مسوس کر رہ گیا شاید وہ اس قابل نہیں کہ اپنی بیوی کو خوش کر سکے ۔ پھر اس نے عیدی بچوں کو دی کچھ قصائی والے کو دیے ۔گوشت کو رشتے داروں میں تقسیم کرنے والا پڑا خراب ہو رہا تھا۔ مگر آمنہ اپنے کمرے سے نکلنے پر آمادہ نہ تھی ۔اس بات پر دونوں میں تکرار اتنی بڑھی کہ یونس کا ہاتھ اٹھتے اٹھتے رہ گیا۔ اسے مسجد کے امام کا خطبہ یاد آیا جس میں بیوی کے حقوق کے بارے میں لمبا چوڑا وعظ یاد آیا۔ یونس کو لگا سارا قصور اس کا ہے۔ اس نے ہمیشہ کی طرح آمنہ کی منت سماجت شروع کی اور وعدہ کیا اگلے ماہ اس کو سونے کی چین لے کر دے گا۔
'''روز بروز بڑھتی خواہشوں ۔۔۔' یونس تنہائی میں بیٹھے سوچ رہا تھا
''آخر کب تک خواہشوں کا گلہ گھونٹوں۔۔۔!! آمنہ سچی ہے میں اس کی خواہشات کی کب تک نفی کرتا رہوں گا !
یونس کو کچھ ماہ پہلے دوست کی طرف سے آفر یاد آگئی ۔۔۔ اس نے کبھی حرام کی کمائی کے بارے میں سوچا نہیں تھا ۔اب وہ پختہ ارادہ سے کہ وہ کل اس دوست کے پاس جائے گا ، سونے کے لیے خواب گاہ کی طرف روانہ ہوا۔ شاید ماں کا سایہ اس کے در و دیوار کو اداس کر رہا تھا اور یونس کو تاریک راہوں کا عادی ہونے جا رہا تھا۔
اگلے دن یونس نے بیوی سے کہا:
''وہ رات دیر سے آیا کرے گا بچوں کا خیال کر لینا۔۔۔
آج یونس کی منزل منڈی نہیں تھی ۔شہر سے دور کسی بوسیدہ مکان میں وہ داخل ہو جہاں پر اس نے ڈاکے ڈالنے کا دھندہ کیا جاتا تھا۔ اس گینگ کا سربراہ سے اس کا پرانا یارانہ تھا ۔ آج وہ بچپن کے ساتھی کے پاس تھا۔احمد نے موچھوں کو تاؤ دیا یونس کو اوپر سے نیچے دیکھا اور ستائشی نگاہ ڈال کر کہا:
'' تو تو بڑا خوبصورت ہوگیا ہے ، تو ڈاکے کا دھندہ نہ کر۔۔۔ خوبصورت بھی بکتی ہے ، یہ خوبصورتی عورت کی نہیں بلکہ مرد کی بھی بکتی ہے ''
قہقے لگاتے ہوئے پوچھا
'' کیا خیال ہے ترا ، ابھی ابھی اس دھندے میں کام ڈالا ہے ، تیرا نام ایسے تو یوسف نہیں ۔۔۔!! قسم سے انگلیاں ٹوٹ جائیں گی ۔۔۔!!
یونس دنگ رہ گیا آج سے پہلے اس نے کبھی اس نہج پر نہیں سوچا تھا ۔ کہتے ہیں موت کی نگری میں ایک دفعہ داخل ہو جاؤ تو واپسی ناممکن ہے اس طرح گناہ کی نگری میں واپسی کے سارے راستے تنگ ہوجاتے ہیں ۔یونس کی ایک رات کی کمائی ایک ماہ کی کمائی سے زیادہ تھی ۔اس نے بیوی کو کنگن لے کر دیے گھر جواہرات سے بھرتا گیا ، کچھ عرصے بعد ایک بڑے بنگلے میں منتقل ہوگیا ۔
یونس کو چار سال یہ دھندہ کرتے ہوگئے اب اس کو اس میں مزہ آنے لگا تھا۔ زندگی میں سکون آگیا تھا ۔بیوی کی محبت ماند پڑ گئ تھی ۔ بچوں سے لاتعلق ہوگیا تھا۔ زندگی میں شادی اور عورت کی حیثیت اس پر عیاں ہوگئ ۔عورت پیسے کی بھوکی ہے اور شادی گلے کا طوق ہے ۔ یونس آج اپنے اڈے پر تھا ۔ آج وہاں ایک نقاب پوش حسینہ آئی تھی ۔یونس نے اس کا نقاب اتارنا چاہا اس نے کہا
''یہاں نہیں ۔۔۔!
تو پھر کہاں۔؟
''تمہاری جنت میں''
وہ ہنستا رہا ،شراب کا ایک گلاس اتار کر گلا پھاڑ کر ہنسا اور کہا:
'' آو میری جنت میں چلو''
رات کے اندھیرا زیادہ تھا یا شراب کا نشہ ۔۔۔ اسے لگا اس نے اس حسینہ کو پہلے کہیں دیکھا ہے ۔مگر وہ اس کو نشے میں پہچان نہ پایا۔ جب وہ صبح اٹھا تو اس کو کنگن ملے وہ کنگن جو اس نے آمنہ کو دیے تھےاور وہ حسینہ غائب تھی ۔ جب وہ گھر پہنچا اس کو آمنہ نظر نہ آئی یونس کے ہاتھ میں کنگن تھے۔ کنگن اس کے ہاتھ سے گرے وہ اٹھانے کی ہمت نہ کر سکا جب اس نے آمنہ کو مردہ پایا۔ اس کا لٹکا ہوا پنکھے سے جسم ۔۔۔۔! یونس کی چیخیں نکلتے نکلتے رہ گئی ۔۔۔!
'' کیا آمنہ میرے تعاقب میں رہتی تھی ؟
آہ!!
ہائے افسوس !
میں اس کے ساتھ بھی انصاف نہیں کر سکا!
اس نے ایسا کیوں کیا میرے ساتھ ؟ ''
اس کے پاس سوچوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ان سوچوں کا جن کا کوئی حل نہیں تھا۔
یونس نے بیوی کو دفنایا،دفناتے ہوئے اسے اپنی ماں یادآئی ۔ وہ زندہ تو نہیں تھی اگر ہوتی تو کیا معاف کرے گی ؟ ۔ اور سوچنے لگا آمنہ کیا بخشی جائی گی ۔۔!!
''کاش ! وہ خود کشی نہ کرتی ۔۔۔۔ کاش ۔۔! '
اس نے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اسے بچوں میں آمنہ نظر آنے لگی ۔ وہ ان کو پیار کرنا چاہتا تھا اس کے دونوں بیٹے اس سے دور بھاگتے رہے ۔ بیٹے جوانی کی سرحد کو پار کر رہے تھے اور وہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا۔ اسے ڈر لگا کل جب یہ خودکفیل ہوں گے تو اس کا کیا حال کریں گے ۔ یونس کو یاد آیا اس نے ماں کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔ وہ ماں کی قبر پر جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔مگر وہ جانتا تک نہ تھا اس کی ماں کی قبر کس قبرستان میں ہے ۔
اولاد نے اس سے لاتعلقی اختیار کرلی تھی ۔ دونوں بیٹے اسے پہچانتے نہیں تھے اسے یاد آیا احمر اور زیان اس کو لپٹ کر کیسے'' بابا ''کہا کرتے تھے ۔ اب اس سے دھندہ کو چلانے کی اور ہمت نہ رہی اس کا ضمیر اس کے گلے کا طوق بن گیا تھا ۔
وہ دن کاٹ رہا تھا ، تمام اثاثے بکتے گئے اور کچھ سال گزر گئے۔ اسکی صحت خراب رہنے لگی ۔ اس کے خواب میں آمنہ تو کبھی ماں آتی ۔ وہ اکثر خواب میں قبرستان دیکھا کرتا تھا جس میں اس رنگ برنگی قبریں نظر آتی وہ ماں کو ڈھونڈنا چاہتا ان میں ایک سرخ رنگ کی قبر تھی وہ ادھر بڑھتا کرنٹ لگتا پیچھا ہٹ جاتا ۔ پھر سیاہ قبر کی طرف جانا چاہتا تو آواز آتی
''ابھی وقت باقی ہے ۔۔۔ابھی انتظار کر۔۔۔۔!!!
مگر اس کی کفالت تو درکنار اس کو گھر میں رکھنا نہیں چاہتے تھے . اس کو گھر سے نکال نہیں سکتے تھے گھر یونس کے نام پر تھا . اب اس کو احساس ہو رہا تھا اولاد کی لاتعلقی ، اس کا روکھا رویہ والدین کے لیے کس قدر اذیت کا باعث ہوتی ہیں . احمد اور زیان کو جب سے باپ کے دھندے کے بارے میں پتا چلا تھا . انہوں ے اس سے کنارا کر لیا تھا . اس کو نزلہ اور بخار رہنے لگا تھا کبھی کبھار پورا جسم جھٹکے لیتا رہتا جیسے کوئی اس کو موت کی وادی میں دھکیل رہا ہو . ایک دن ہمت کرکے اس نے ڈاکڑ کے پاس جانے کا سوچا . ڈاکٹر نے مرض کی تشخیص سے پہلے اس کو بلڈ ٹیسٹ کے لیے کہا . جب رپورٹ اس کے سامنے تھا . اس کو لگا زمین ایک دفعہ پھر اس کو نگلنا چاہ رہی ہے .
'' کاش ! زمین پھٹ سکتی اور میں اس کی گہرائیوں میں کھو جاتا . میں زمین کے اوپر رہنے کے قابل نہیں ہوں "
۔
""میں زندہ نہیں رہنا چاہتا ...! میری زندگی تو تھوڑی سی رہ گئی مگر میں بچوں کے رحم و کرم پر نہیں گزار سکتا ...! ان کی تحقیر آمیز نظروں کو برداشت نہیں کر سکتا ..!
""ہاں ! میں خود کو ختم کر سکتا ہوں .....! یہ سب سے آسان حل ہے ..... مجھے دنیا کا سامنا نہیں کرنے پڑے گا ... مجھے فرار چاہیے ...! مجھے پناہ چاہیے ..."
""فرار....فرار فرار .....بس فرار.......؎ؔ""
اس نے بیڈ کے سائید ٹیبل کھولا .. اس میں اپنا ریوالور اٹھایا ..اور اونچا اونچا کہنے لگا:
"یونس ...! یونس....تجھے فرار چاہیے ... لے میں تجھے پناہ دیتا ہوں ، آ .. آ جا ! یونس موت کی وادی میں...! جلدی کر ... اس سے پہلے لے فرار کے سب در بند ہوجائے ...آ جا .. یونس "
وہ یہ ٹوٹے پھوٹے لفظ ریوالور کن پٹی پر رکھے کہے جا رہا تھا .... اچانک دھماکہ ہوا...
یونس زمین پر جا گرا....! اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں ..ان کھلی آنکھوں سے وہ شہدا کا مشروب نہیں پی رہا تھا کہ اس کی اذیت کم ہو جاتی بلکہ وہ تو ایک منظر دیکھ رہا تھا .. اس کا جسم ساکت تھا .. روح دل میں جکڑی ہوئی نکل رہی تھی .. وہ منظر کیا تھا ..وہی خواب... وہی جو اکثر وہ دیکھا کرتا تھا .
موسم میں خنکی تھی ہر طرف سرد لہریں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں جیسے روحیں ایک دوسرے سے باتیں کر رہی تھیں ۔ یونس ادھر سے بھاگنا چاہ رہا تھا اجل جس کو ایک دفعہ تھام لے اس کی جائے مقام دنیا نہیں رہتی ۔ اس کے سامنے وہی قبرستان تھا جس میں رنگ برنگی قبریں تھیں وہ آج سرخ قبر کی طرف بڑھا اس کو ماں کو چہرا نظر آیا مگر ماں نے اس سے منہ پھیر لیا ۔ پھر سیاہ قبروں والے حصے کی طرف بڑھا وہاں پر اس کی بیوی اس سے نالاں کھڑی تھی ۔اس کی آنکھوں میں کوئی شکوہ نہ شکایت تھی بس دکھ کی ایک تحریر تھی ۔ ان قبروں میں وہ تمام روحیں تھیں جو خودکشی کرکے یہاں پہنچی تھیں ۔ اس لگا کوئی آواز اسے یہاں آنے سے روکے گی مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اس نے جیسے ہی قدم بڑھایا وہاں پر ایک قبر نمودار ہوگئی
آخری تدوین: