نور وجدان
لائبریرین
مکافاتِ عمل
شام کا وقت تھا رات چھا رہی تھی۔بادل سر پر منڈلارہے تھے ان کا اس کی روح کو چھو جانا تنہائی کی منافی کر رہا تھا۔ شام سے رات کا چڑھتا وقت ، چھاتا ہوا اندھیرا اس بات کی عیاں کر رہا تھا اس کے ساتھ اب کوئی بھی نہیں ۔ وہ بھاگتا رہا اس کی رفتار اتنی تیز تھی جتنی کسی روح کی ہوسکتی تھی ۔کبھی جنگل، کبھی صحرا تو کبھی پہاڑوں میں وہ اپنے قبیلے والوں کو تلاش کر رہا تھا ۔شاید کوئی اس کا ہمدم ، ساتھی اس کو مل جائے۔ وہ بھوک و پیاس سے عاری سفر پر رواں دواں جانے کس کو ڈھونڈ رہا تھا۔اب وہ کسی قبرستان میں داخل ہوا ۔ یہ عام قبرستانوں سے الگ تھا۔ کچھ قبریں سرخ چمکتی روشن تھیں ان کی آب و تاب اس کے لیے نئی نہیں تھی مگر اس نے جیسے ہی اس حصے پر قدم رکھا اس کو ایک جھٹکا سا لگا۔ جیسے کسی نے اس کو پیچھے دھکیل دیا ہو۔ کچھ قبریں سبز رنگ تو کچھ سفید رنگ کی تھیں ۔ وہ وہاں پر بھی جا نہ پایا۔ کچھ قبریں سیاہ تھیں وہ ان کے دہانے پر کھڑا تھا پہچان کر رہا دنیا والوں کی طرح قبروں کی بھی تفریق ہوتی ہے ۔باغی تو وہ شروع سے تھا اس کے اندر تفریق کے پکتے الاؤ نے اس کو اپنے ٹھکانے سے دربدر کر دیا تھا۔ سیاہ قبروں کا مالک اب ان کو چھو نہیں سکتا تھا۔
یونس کو اپنے بیوی سے محبت تھی ۔ اس محبت میں اکثر وہ ماں کو جھڑک دیا کرتا تھا۔ماں کو وہ ''بے بے'' کہا کرتا تھا ۔ ''بے بے ! ، بے بے " کدھر ہے تو ہے ۔وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں اس کو ڈھونڈ رہا تھا۔اب وہ ردی کباڑ والے کمرے میں گیا ''بے بے '' وہاں ہر لمبی تان کر سوئی ہوئی تھی ۔۔۔ یونس نے '' بے بے '' کو پھر آواز دی ۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھی پھر اپنے بیٹے کو دیکھ کر بہت خوش ہوگئی کہ اس کا جگر کا ٹکرا اس کے سامنے بیٹھا ہے۔ مگر یونس نے ''بے بے'' کو بالوں سے پکڑا اور گھسیٹ کر گھر کے دروازے تک لے گیا۔ وہ گرج کر بولا '' بے بے'' تو نے آج پھر دیسی گھی چوری کیا ہے تجھے پتا ہے وہ آمنہ کے لیے تھا اب میری بس سے تو باہر ہے ۔ اس کی ماں جس کے پاؤں میں لنگ تھا اس کو چلتی ایک گدھا گاڑی پر بٹھایا اور گاڑی والے کو کچھ پیسے دیے ۔یونس ہمیشہ اس طرح کیا کرتا جب ماں ست تنگ آجاتا بہن کے گھر بجھوا دیتا ۔
آج عید کا دن تھا یونس اپنی بیوی کے لیے سونے کی انگوٹھی لایا تھا ۔ آمنہ کی فرمائش تھی اس نے بچت کرکے بیوی کو انگوٹھی پہنائی ۔ آمنہ پہلے پہل تو خوش ہوئی مگر جب انگوٹھی ہی کو صرف تحفہ پایا تو سیخ پا ہوگئ غصے میں انگوٹھی اتار کر رکھ دی ۔ یونس دل مسوس کر رہ گیا شاید وہ اس قابل نہیں کہ اپنی بہوی کو خوش کر سکے ۔ پھر اس نے عیدی بچوں کو دی کچھ قصائی والے کو دیے ۔گوشت کو رشتے داروں میں تقسیم کرنے والا تھا مگر آمنہ کچن میں آگئی ۔گوشت کے بانٹنے پر تکرار ہوگئ بات بڑھ گئ۔ یونس کا ہاتھ اٹھتے اٹھتے رہ گیا۔ اسے مسجد کے امام کا خطبہ یاد آیا جس میں بیوی کے حقوق کے بارے میں لمبا چوڑا وعظ یاد آیا۔ یونس کو لگا سارا قصور اس کا ہے۔ اس نے ہمیشہ کی طرح آمنہ کی منت سماجت شروع کی اور وعدہ کیا اگلے ماہ اس کو سونے کی چین لے کر دے گا۔
اگلے دن یونس نے بیوی سے کہا وہ رات دیر سے آیا کرے گا بچوں کا خیال کر لینا۔ آج یونس کی منزل منڈی نہیں تھی ۔شہر سے دور کسی بوسیدہ مکان میں وہ داخل ہو جہاں پر اس نے ڈاکے ڈالنے کا دھندہ شروع کرنا تھا ۔ اس گینگ کا سربراہ سے اس کا پرانا یارانہ تھا ۔ آج وہ بچپن کے ساتھی کے پاس تھا۔احمد نے موچھوں کو تاؤ دیا یونس کو اوپر سے نیچے دیکھا اور ستائشی نگاہ ڈال کر کہا '' تو تو بڑا خوبصورت ہوگیا ہے ، تو ڈاکے کا دھندہ نہ کر۔۔۔ خوبصورت بھی بکتی ہے ، یہ خوبصورتی عورت کی نہیں بلکہ مرد کی بھی بکتی ہے '' یونس دنگ رہ گیا آج سے پہلے اس نے کبھی اس نہج پر نہیں سوچا تھا ۔ کہتے ہیں موت کی نگری میں ایک دفعہ داخل ہو جاؤ تو واپسی ناممکن ہے اس طرح گناہ کی نگری میں واپسی کے سارے راستے تنگ ہوجاتے ہیں ۔یونس کی ایک رات کی کمائی ایک ماہ کی کمائی سے زیادہ تھی ۔اس نے بیوی کو کنگن لے کر دیے گھر جواہرات سے بھرتا گیا ، کچھ عرصے بعد ایک بڑے بنگلے میں منتقل ہوگیا ۔
یونس کو چار سال یہ دھندہ کرتے ہوگئے اب اس کو اس میں مزہ آنے لگا تھا۔ زندگی میں سکون آگیا تھا ۔بیوی کی محبت ماند پڑ گئ تھی ۔ بچوں سے لاتعلق ہوگیا تھا۔ زندگی میں شادی اور عورت کی حیثیت اس پر عیاں ہوگئ ۔عورت پیسے کی بھوکی ہے اور شادی گلے کا طوق ہے ۔ یونس آج اپنے اڈے پر تھا ۔ آج وہاں ایک خوبرو حسینہ بکھارن بن کر آئی تھی ۔یونس نے اس کا نقاب اتارنا چاہا اس نے کہا یہاں نہیں ۔۔۔ وہ ہنستا رہا ،شراب کا ایک گلاس اتار کر گلا پھاڑ کر ہنسا اور کہا '' آو میری جنت میں چلو'' رات کے اندھیرا زیادہ تھا یا شراب کا نشہ ۔۔۔ اسے لگا اس نے اس حسینہ کو پہلے کہیں دیکھا ہے ۔ جب وہ صبح اٹھا تو اس کو کنگن ملے اور وہ حسینہ غائب تھی ۔ جب وہ گھر پہنچا اس کو آمنہ نظر نہ آئی یونس کے ہاتھ میں کنگن تھے کنگن اس کے ہاتھ سے گرے وہ اٹھانے کی ہمت نہ کر سکا جب اس نے آمنہ کو مردہ پایا۔
یونس نے بیوی کو دفنایا اور بچوں کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اسے بچوں میں آمنہ نظر آنے لگی ۔ وہ ان کو پیار کرنا چاہتا تھا اس کے دونوں بیٹے اس سے دور بھاگتے رہے ۔ بیٹے جوانی کی سرحد کو پار کر رہے تھے اور وہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا۔ اسے ڈر لگا کل جب یہ کفیل ہوں گے تو اس کا کیا حال کریں گے ۔ یونس کو یاد آیا اس نے ماں کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔ وہ ماں کی قبر پر جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔
اولاد نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ دونوں بیٹے اسے پہچانتے نہیں تھے اسے یاد آیا احمر اور زیان اس کو لپٹ کر کیسے بابا کہا کرتے تھے ۔ اسے اس دھندہ کو چلانے کی اور ہمت نہ رہی اس کا ضمیر اس کے گلے کا طوق بن گیا تھا ۔ وہ دن کاٹ رہا تھا ، تمام اثاثے بکتے گئے اور کچھ سال گزر گئے۔ اسکی صحت خراب رہنے لگی ۔ اس کے خواب میں آمنہ تو کبھی ماں آتی ۔ وہ اکثر خواب میں قبرستان دیکھا کرتا تھا جس میں اس رنگ برنگی قبریں نظر آتی وہ ماں کو ڈھونڈنا چاہتا ان میں ایک سرخ رنگ کی قبر تھی وہ ادھر بڑھتا کرنٹ لگتا پیچھا ہٹ جاتا ۔ پھر سیاہ قبر کی طرف جانا چاہتا تو آواز آتی ''ابھی وقت باقی ہے ''یونس کو کل کا خطرہ لاحق ہونے لگا۔ اس کے بچے کمانے لگے تھے مگر اس کا کفالت کرنے کو وہ تیار نہ تھے ۔ دونوں اپنی دونوں میں مگن تھے ۔ اک دن اس نے ریوالور اٹھایا اس کو گولیوں سے بھرا ۔ اور اپنے سر پر ریوالور کو رکھا اور ٹریگر دبا دیا ۔
موسم میں خنکی تھی ہر طرف سرد لہریں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں جیسے روحیں ایک دوسرے سے باتیں کر رہی تھیں ۔ یونس ادھر سے بھاگنا چاہ رہا تھا اجل جس کو ایک دفعہ تھام لے اس کی جائے مقام دنیا نہیں رہتی ۔ اس کے سامنے وہی قبرستان تھا جس میں رنگ برنگی قبریں تھیں وہ آج سرخ قبر کی طرف بڑھا اس کو ماں کو چہرا نظر آیا مگر ماں نے اس سے منہ پھیر لیا ۔ پھر سیاہ قبروں والے حصے کی طرف بڑھا وہاں پر اس کی بیوی اس سے نالاں کھڑی تھی ۔اس کی آنکھوں میں کوئی شکوہ نہ شکایت تھی بس دکھ کی ایک تحریر تھی ۔ ان قبروں میں وہ تمام روحیں تھیں جو خودکشی کرکے یہاں پہنچی تھیں ۔ اس لگا کوئی آواز اسے یہاں آنے سے روکے گی مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اس نے جیسے ہی قدم بڑھایا وہاں پر ایک قبر نمودار ہوگئی
شام کا وقت تھا رات چھا رہی تھی۔بادل سر پر منڈلارہے تھے ان کا اس کی روح کو چھو جانا تنہائی کی منافی کر رہا تھا۔ شام سے رات کا چڑھتا وقت ، چھاتا ہوا اندھیرا اس بات کی عیاں کر رہا تھا اس کے ساتھ اب کوئی بھی نہیں ۔ وہ بھاگتا رہا اس کی رفتار اتنی تیز تھی جتنی کسی روح کی ہوسکتی تھی ۔کبھی جنگل، کبھی صحرا تو کبھی پہاڑوں میں وہ اپنے قبیلے والوں کو تلاش کر رہا تھا ۔شاید کوئی اس کا ہمدم ، ساتھی اس کو مل جائے۔ وہ بھوک و پیاس سے عاری سفر پر رواں دواں جانے کس کو ڈھونڈ رہا تھا۔اب وہ کسی قبرستان میں داخل ہوا ۔ یہ عام قبرستانوں سے الگ تھا۔ کچھ قبریں سرخ چمکتی روشن تھیں ان کی آب و تاب اس کے لیے نئی نہیں تھی مگر اس نے جیسے ہی اس حصے پر قدم رکھا اس کو ایک جھٹکا سا لگا۔ جیسے کسی نے اس کو پیچھے دھکیل دیا ہو۔ کچھ قبریں سبز رنگ تو کچھ سفید رنگ کی تھیں ۔ وہ وہاں پر بھی جا نہ پایا۔ کچھ قبریں سیاہ تھیں وہ ان کے دہانے پر کھڑا تھا پہچان کر رہا دنیا والوں کی طرح قبروں کی بھی تفریق ہوتی ہے ۔باغی تو وہ شروع سے تھا اس کے اندر تفریق کے پکتے الاؤ نے اس کو اپنے ٹھکانے سے دربدر کر دیا تھا۔ سیاہ قبروں کا مالک اب ان کو چھو نہیں سکتا تھا۔
یونس کو اپنے بیوی سے محبت تھی ۔ اس محبت میں اکثر وہ ماں کو جھڑک دیا کرتا تھا۔ماں کو وہ ''بے بے'' کہا کرتا تھا ۔ ''بے بے ! ، بے بے " کدھر ہے تو ہے ۔وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں اس کو ڈھونڈ رہا تھا۔اب وہ ردی کباڑ والے کمرے میں گیا ''بے بے '' وہاں ہر لمبی تان کر سوئی ہوئی تھی ۔۔۔ یونس نے '' بے بے '' کو پھر آواز دی ۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھی پھر اپنے بیٹے کو دیکھ کر بہت خوش ہوگئی کہ اس کا جگر کا ٹکرا اس کے سامنے بیٹھا ہے۔ مگر یونس نے ''بے بے'' کو بالوں سے پکڑا اور گھسیٹ کر گھر کے دروازے تک لے گیا۔ وہ گرج کر بولا '' بے بے'' تو نے آج پھر دیسی گھی چوری کیا ہے تجھے پتا ہے وہ آمنہ کے لیے تھا اب میری بس سے تو باہر ہے ۔ اس کی ماں جس کے پاؤں میں لنگ تھا اس کو چلتی ایک گدھا گاڑی پر بٹھایا اور گاڑی والے کو کچھ پیسے دیے ۔یونس ہمیشہ اس طرح کیا کرتا جب ماں ست تنگ آجاتا بہن کے گھر بجھوا دیتا ۔
آج عید کا دن تھا یونس اپنی بیوی کے لیے سونے کی انگوٹھی لایا تھا ۔ آمنہ کی فرمائش تھی اس نے بچت کرکے بیوی کو انگوٹھی پہنائی ۔ آمنہ پہلے پہل تو خوش ہوئی مگر جب انگوٹھی ہی کو صرف تحفہ پایا تو سیخ پا ہوگئ غصے میں انگوٹھی اتار کر رکھ دی ۔ یونس دل مسوس کر رہ گیا شاید وہ اس قابل نہیں کہ اپنی بہوی کو خوش کر سکے ۔ پھر اس نے عیدی بچوں کو دی کچھ قصائی والے کو دیے ۔گوشت کو رشتے داروں میں تقسیم کرنے والا تھا مگر آمنہ کچن میں آگئی ۔گوشت کے بانٹنے پر تکرار ہوگئ بات بڑھ گئ۔ یونس کا ہاتھ اٹھتے اٹھتے رہ گیا۔ اسے مسجد کے امام کا خطبہ یاد آیا جس میں بیوی کے حقوق کے بارے میں لمبا چوڑا وعظ یاد آیا۔ یونس کو لگا سارا قصور اس کا ہے۔ اس نے ہمیشہ کی طرح آمنہ کی منت سماجت شروع کی اور وعدہ کیا اگلے ماہ اس کو سونے کی چین لے کر دے گا۔
اگلے دن یونس نے بیوی سے کہا وہ رات دیر سے آیا کرے گا بچوں کا خیال کر لینا۔ آج یونس کی منزل منڈی نہیں تھی ۔شہر سے دور کسی بوسیدہ مکان میں وہ داخل ہو جہاں پر اس نے ڈاکے ڈالنے کا دھندہ شروع کرنا تھا ۔ اس گینگ کا سربراہ سے اس کا پرانا یارانہ تھا ۔ آج وہ بچپن کے ساتھی کے پاس تھا۔احمد نے موچھوں کو تاؤ دیا یونس کو اوپر سے نیچے دیکھا اور ستائشی نگاہ ڈال کر کہا '' تو تو بڑا خوبصورت ہوگیا ہے ، تو ڈاکے کا دھندہ نہ کر۔۔۔ خوبصورت بھی بکتی ہے ، یہ خوبصورتی عورت کی نہیں بلکہ مرد کی بھی بکتی ہے '' یونس دنگ رہ گیا آج سے پہلے اس نے کبھی اس نہج پر نہیں سوچا تھا ۔ کہتے ہیں موت کی نگری میں ایک دفعہ داخل ہو جاؤ تو واپسی ناممکن ہے اس طرح گناہ کی نگری میں واپسی کے سارے راستے تنگ ہوجاتے ہیں ۔یونس کی ایک رات کی کمائی ایک ماہ کی کمائی سے زیادہ تھی ۔اس نے بیوی کو کنگن لے کر دیے گھر جواہرات سے بھرتا گیا ، کچھ عرصے بعد ایک بڑے بنگلے میں منتقل ہوگیا ۔
یونس کو چار سال یہ دھندہ کرتے ہوگئے اب اس کو اس میں مزہ آنے لگا تھا۔ زندگی میں سکون آگیا تھا ۔بیوی کی محبت ماند پڑ گئ تھی ۔ بچوں سے لاتعلق ہوگیا تھا۔ زندگی میں شادی اور عورت کی حیثیت اس پر عیاں ہوگئ ۔عورت پیسے کی بھوکی ہے اور شادی گلے کا طوق ہے ۔ یونس آج اپنے اڈے پر تھا ۔ آج وہاں ایک خوبرو حسینہ بکھارن بن کر آئی تھی ۔یونس نے اس کا نقاب اتارنا چاہا اس نے کہا یہاں نہیں ۔۔۔ وہ ہنستا رہا ،شراب کا ایک گلاس اتار کر گلا پھاڑ کر ہنسا اور کہا '' آو میری جنت میں چلو'' رات کے اندھیرا زیادہ تھا یا شراب کا نشہ ۔۔۔ اسے لگا اس نے اس حسینہ کو پہلے کہیں دیکھا ہے ۔ جب وہ صبح اٹھا تو اس کو کنگن ملے اور وہ حسینہ غائب تھی ۔ جب وہ گھر پہنچا اس کو آمنہ نظر نہ آئی یونس کے ہاتھ میں کنگن تھے کنگن اس کے ہاتھ سے گرے وہ اٹھانے کی ہمت نہ کر سکا جب اس نے آمنہ کو مردہ پایا۔
یونس نے بیوی کو دفنایا اور بچوں کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اسے بچوں میں آمنہ نظر آنے لگی ۔ وہ ان کو پیار کرنا چاہتا تھا اس کے دونوں بیٹے اس سے دور بھاگتے رہے ۔ بیٹے جوانی کی سرحد کو پار کر رہے تھے اور وہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا۔ اسے ڈر لگا کل جب یہ کفیل ہوں گے تو اس کا کیا حال کریں گے ۔ یونس کو یاد آیا اس نے ماں کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔ وہ ماں کی قبر پر جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔
اولاد نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ دونوں بیٹے اسے پہچانتے نہیں تھے اسے یاد آیا احمر اور زیان اس کو لپٹ کر کیسے بابا کہا کرتے تھے ۔ اسے اس دھندہ کو چلانے کی اور ہمت نہ رہی اس کا ضمیر اس کے گلے کا طوق بن گیا تھا ۔ وہ دن کاٹ رہا تھا ، تمام اثاثے بکتے گئے اور کچھ سال گزر گئے۔ اسکی صحت خراب رہنے لگی ۔ اس کے خواب میں آمنہ تو کبھی ماں آتی ۔ وہ اکثر خواب میں قبرستان دیکھا کرتا تھا جس میں اس رنگ برنگی قبریں نظر آتی وہ ماں کو ڈھونڈنا چاہتا ان میں ایک سرخ رنگ کی قبر تھی وہ ادھر بڑھتا کرنٹ لگتا پیچھا ہٹ جاتا ۔ پھر سیاہ قبر کی طرف جانا چاہتا تو آواز آتی ''ابھی وقت باقی ہے ''یونس کو کل کا خطرہ لاحق ہونے لگا۔ اس کے بچے کمانے لگے تھے مگر اس کا کفالت کرنے کو وہ تیار نہ تھے ۔ دونوں اپنی دونوں میں مگن تھے ۔ اک دن اس نے ریوالور اٹھایا اس کو گولیوں سے بھرا ۔ اور اپنے سر پر ریوالور کو رکھا اور ٹریگر دبا دیا ۔
موسم میں خنکی تھی ہر طرف سرد لہریں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں جیسے روحیں ایک دوسرے سے باتیں کر رہی تھیں ۔ یونس ادھر سے بھاگنا چاہ رہا تھا اجل جس کو ایک دفعہ تھام لے اس کی جائے مقام دنیا نہیں رہتی ۔ اس کے سامنے وہی قبرستان تھا جس میں رنگ برنگی قبریں تھیں وہ آج سرخ قبر کی طرف بڑھا اس کو ماں کو چہرا نظر آیا مگر ماں نے اس سے منہ پھیر لیا ۔ پھر سیاہ قبروں والے حصے کی طرف بڑھا وہاں پر اس کی بیوی اس سے نالاں کھڑی تھی ۔اس کی آنکھوں میں کوئی شکوہ نہ شکایت تھی بس دکھ کی ایک تحریر تھی ۔ ان قبروں میں وہ تمام روحیں تھیں جو خودکشی کرکے یہاں پہنچی تھیں ۔ اس لگا کوئی آواز اسے یہاں آنے سے روکے گی مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اس نے جیسے ہی قدم بڑھایا وہاں پر ایک قبر نمودار ہوگئی
آخری تدوین: