ناعمہ عزیز
لائبریرین
میں یقین رکھتی ہوں کہ ہر انسان کو ہر لمحے ہر دن اور زندگی میں اُتنا ہی ملتا ہے جتنا کہ اُس کی قسمت ہو، تقدیر تو رب کی ذات نے لکھ دی ہے مگر تدبیر ہمیں ہی کرنی ہے۔ اور ہم کرتے ہیں ، ہر صبح سے شام تک ہم تدبیر کرتے ہیں، ہمیں کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ، کس راہ پہ چلنا ہے کس پہ نہیں چلنا ، کس کو خوش رکھنا ہے کس سے بات تک نہیں کرنی۔
مگر اس سب کے باوجود ہم وہ بھی کرتے ہیں جو ہم نہیں کرنا چاہتے ، ہم وہ کام بھی کرتے ہیں جس کا انجام اچھا نہیں ہو تا ، ہم جانے انجانے میں لوگوں کو دکھ بھی دیتے ہی اور پھر بھول جاتے ہیں ہم اُس راہ پہ بھی چلتے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی،
بقو ل علامہ اقبال
’’ اگر راستہ خوبصورت ہے تو پتا کرو کس منزل کو جاتا ہے لیکن اگر منزل خوبصورت ہے تو راستے کی پروا مت کرو۔‘‘
پر ہم یہ کہاں سوچے ہیں؟؟؟؟ اگر ہم ایسی باتوں پہ عمل کرنے لگ جائیں تو کیا زندگی آسان نا ہو جائے!!
پر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے نفس کے غلام ہیں، ہر وہ کام کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جس کا کسی نا کسی کو نقصان ضرور ہوتا ہے۔ پر ہم یہ بھول جاتے ہمارے اندر بھی ایک جج براجمان ہے ، جونا بکتا ہے نا جھکتا ہے ، عین ٹائم پہ آپ کے دماغ میں الارم بجے گا اور ٹک ٹک ٹک ،،آپ کو بلایا جائے گا آپ کو مجرم بنا کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور ٖ ثابت کیا جائے گا ’’غلط کیا ،غلط کیا‘‘ پھر فیصلہ بھی ہوجائے گا اُسی وقت!!! سز ا ملنے میں دیر لگے گی ، تب تک آپ خود کو بہلائیں گے ، تسلی دیں گے کہ نہیں سب ٹھیک ہے، آپ کے اندر بے سکونی رہے گی ہلچل رہے گی، پھر ایک دن کچھ ویسا ہی سلوک آپ کے ساتھ کیا جائے گا جو آپ نے کسی اور کے ساتھ کیا ہو گا ، پھر جا کے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ نےغلط کیا تھا ۔
پر یہ جو سب میں نے لکھا یہ سب اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کے ضمیر ابھی زندہ ہوں ، جو لوگ ٖغلطی، گناہ، اور دھوکے دے کر اپنے دل کو کالا کر دیتے ہیں انہیں ایسا کوئی احساس نہیں کیوں کہ اُن کا ضمیر مر چکا ہوتا ہے اُن کے اندر ایک شیطان براجمان ہو جاتا ہے جو ہر فیصلہ ان ہی کہ حق میں کرتا ہے اور وہ بڑے فخر سے سر بلند کرکے کہتے ہیں ہم ٹھیک کر رہے ہیں ، نا صرف یہ بلکہ وہ آپ کو الزام دیں گے آپ پہ چڑھائی کریں گے کہ آپ غلط ہیں۔ ایسے لوگوں کو ایک ہی بار چوٹ لگتی ہے جو ان کی روح کو اندر تک گھائل کر دیتی ہے، پھر جب وہ اپنے آپ سے ملتے ہیں تب اُن کو احساس ہوتا ہے۔پر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گزرا وقت لوٹ کر نہیں آسکتا اور پچھتاوے کے سوا اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔
ہم دنیا میں آئے ہیں ایک دن جانا بھی ہے۔
یہ دنیا مکافات عمل ہے، یہاں ہر شخص کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے، ہر جھوٹ ، ہر دھوکے، ہر فریب ، ہر تکلیف، ہر اذیت جو وہ کسی کو دیتا ہے، اُسے اپنی ذات پہ بھگتنا ہے۔ہر غلط ارادے ، سوچ، عمل کا حساب دینا ہے۔
مگر اس سب کے باوجود ہم وہ بھی کرتے ہیں جو ہم نہیں کرنا چاہتے ، ہم وہ کام بھی کرتے ہیں جس کا انجام اچھا نہیں ہو تا ، ہم جانے انجانے میں لوگوں کو دکھ بھی دیتے ہی اور پھر بھول جاتے ہیں ہم اُس راہ پہ بھی چلتے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی،
بقو ل علامہ اقبال
’’ اگر راستہ خوبصورت ہے تو پتا کرو کس منزل کو جاتا ہے لیکن اگر منزل خوبصورت ہے تو راستے کی پروا مت کرو۔‘‘
پر ہم یہ کہاں سوچے ہیں؟؟؟؟ اگر ہم ایسی باتوں پہ عمل کرنے لگ جائیں تو کیا زندگی آسان نا ہو جائے!!
پر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے نفس کے غلام ہیں، ہر وہ کام کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جس کا کسی نا کسی کو نقصان ضرور ہوتا ہے۔ پر ہم یہ بھول جاتے ہمارے اندر بھی ایک جج براجمان ہے ، جونا بکتا ہے نا جھکتا ہے ، عین ٹائم پہ آپ کے دماغ میں الارم بجے گا اور ٹک ٹک ٹک ،،آپ کو بلایا جائے گا آپ کو مجرم بنا کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور ٖ ثابت کیا جائے گا ’’غلط کیا ،غلط کیا‘‘ پھر فیصلہ بھی ہوجائے گا اُسی وقت!!! سز ا ملنے میں دیر لگے گی ، تب تک آپ خود کو بہلائیں گے ، تسلی دیں گے کہ نہیں سب ٹھیک ہے، آپ کے اندر بے سکونی رہے گی ہلچل رہے گی، پھر ایک دن کچھ ویسا ہی سلوک آپ کے ساتھ کیا جائے گا جو آپ نے کسی اور کے ساتھ کیا ہو گا ، پھر جا کے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ نےغلط کیا تھا ۔
پر یہ جو سب میں نے لکھا یہ سب اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کے ضمیر ابھی زندہ ہوں ، جو لوگ ٖغلطی، گناہ، اور دھوکے دے کر اپنے دل کو کالا کر دیتے ہیں انہیں ایسا کوئی احساس نہیں کیوں کہ اُن کا ضمیر مر چکا ہوتا ہے اُن کے اندر ایک شیطان براجمان ہو جاتا ہے جو ہر فیصلہ ان ہی کہ حق میں کرتا ہے اور وہ بڑے فخر سے سر بلند کرکے کہتے ہیں ہم ٹھیک کر رہے ہیں ، نا صرف یہ بلکہ وہ آپ کو الزام دیں گے آپ پہ چڑھائی کریں گے کہ آپ غلط ہیں۔ ایسے لوگوں کو ایک ہی بار چوٹ لگتی ہے جو ان کی روح کو اندر تک گھائل کر دیتی ہے، پھر جب وہ اپنے آپ سے ملتے ہیں تب اُن کو احساس ہوتا ہے۔پر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گزرا وقت لوٹ کر نہیں آسکتا اور پچھتاوے کے سوا اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔
ہم دنیا میں آئے ہیں ایک دن جانا بھی ہے۔
یہ دنیا مکافات عمل ہے، یہاں ہر شخص کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے، ہر جھوٹ ، ہر دھوکے، ہر فریب ، ہر تکلیف، ہر اذیت جو وہ کسی کو دیتا ہے، اُسے اپنی ذات پہ بھگتنا ہے۔ہر غلط ارادے ، سوچ، عمل کا حساب دینا ہے۔