کاشفی
محفلین
مکالمہء ساقی و سَاغر
(دربابِ رحلتِ علامہء اقبال رحمتہ اللہ علیہ)
(از: ساغر نظامی)
(دربابِ رحلتِ علامہء اقبال رحمتہ اللہ علیہ)
(از: ساغر نظامی)
ساغر:
کیا ہوا رندِ بلانوش تمام اے ساقی
کیوں کھنکتے نہیں اب ساغر و جام اے ساقی
عرق آگیں ہے یہ کیوں وقت سحر کا مکھڑا
خاک آلود ہیں کیوں گیسوئے شام اے ساقی
نہ ہے پیمانے میں پرتَو نہ مرے ساغر میں
کیا ہوا آج ترا ماہِ تمام اے ساقی
جیسے رہرو کسی کھوئی ہوئی شے کو ڈھونڈے
ہے کچھ ایسا ترا اندازِ خرام اے ساقی
خمِ مشرق میں سہی بادہء رنگیں باقی
مَے اقبال تھی پھر حاصلِ جام اے ساقی
روحِ اقبال تھی سرشار مَے کیفِ ازل
مجھ سے کافر کو نہیں اس میں کلام اے ساقی
مدفنِ شب ہے سحر، مقبرہء روز ہے شام
کیا یہی ہے تری دنیا کا نظام اے ساقی
یہی انجام ہے گر میکشی و مستی کا
تیرے میخانے کو میرا بھی سلام اے ساقی
صبح محشر سے ادھر کھل نہ سکے گا گویا
اس طرح بند ہے دروازہء عام اے ساقی
رہ گیا تھا یہی اک رند سبو کش باقی
نامہء مرگ نہ آیا ترے نام اے ساقی
کیا ہے عالم کی تباہی میں کلام اے ساقی
کردے خم زار کو غرق مے و جام اے ساقی
خام ہے خام ہے قدرت کا نظام اے ساقی
کیوں کھنکتے نہیں اب ساغر و جام اے ساقی
عرق آگیں ہے یہ کیوں وقت سحر کا مکھڑا
خاک آلود ہیں کیوں گیسوئے شام اے ساقی
نہ ہے پیمانے میں پرتَو نہ مرے ساغر میں
کیا ہوا آج ترا ماہِ تمام اے ساقی
جیسے رہرو کسی کھوئی ہوئی شے کو ڈھونڈے
ہے کچھ ایسا ترا اندازِ خرام اے ساقی
خمِ مشرق میں سہی بادہء رنگیں باقی
مَے اقبال تھی پھر حاصلِ جام اے ساقی
روحِ اقبال تھی سرشار مَے کیفِ ازل
مجھ سے کافر کو نہیں اس میں کلام اے ساقی
مدفنِ شب ہے سحر، مقبرہء روز ہے شام
کیا یہی ہے تری دنیا کا نظام اے ساقی
یہی انجام ہے گر میکشی و مستی کا
تیرے میخانے کو میرا بھی سلام اے ساقی
صبح محشر سے ادھر کھل نہ سکے گا گویا
اس طرح بند ہے دروازہء عام اے ساقی
رہ گیا تھا یہی اک رند سبو کش باقی
نامہء مرگ نہ آیا ترے نام اے ساقی
کیا ہے عالم کی تباہی میں کلام اے ساقی
کردے خم زار کو غرق مے و جام اے ساقی
خام ہے خام ہے قدرت کا نظام اے ساقی
جوابِ ساقی:
جوشِ غم میں یہ ترا طرزِ کلام اے ساغر
مرحبا، لے یہ چھلکتا ہوا جام اے ساغر
مہرِ تخلیق ہو یا مرحلہء مرگِ حیات
مجھ سے پوشیدہ نہیں کوئی مقام اے ساغر
چشمِ مُردہ میں حیاتِ ابدی نیستی ہے
مرگِ میخانہ تو ہے عمرِ دوام اے ساغر
نغمہء قلقلِ مینا ہے فضا میں محفوظ
کہیں مرتے ہیں کلیم اور کلام اے ساغر
جس کی پرواز تخیل تھی فضا بوس فلک
اب وہی عرش پہ ہے محوِ خرام اے ساغر
خاکِ اقبال کا ہر ذرہ ہے میخانہ بدوش
خم بہ خم، بادہ چکاں، جام بہ جام اے ساغر
شعر اس کا ہے زمانے کو پیامِ ابدی
اس نے قایم کیا شاعر کا مقامِ ابدی
جاوداں ہے مرے ہستوں کا امام اے ساغر
مرحبا، لے یہ چھلکتا ہوا جام اے ساغر
مہرِ تخلیق ہو یا مرحلہء مرگِ حیات
مجھ سے پوشیدہ نہیں کوئی مقام اے ساغر
چشمِ مُردہ میں حیاتِ ابدی نیستی ہے
مرگِ میخانہ تو ہے عمرِ دوام اے ساغر
نغمہء قلقلِ مینا ہے فضا میں محفوظ
کہیں مرتے ہیں کلیم اور کلام اے ساغر
جس کی پرواز تخیل تھی فضا بوس فلک
اب وہی عرش پہ ہے محوِ خرام اے ساغر
خاکِ اقبال کا ہر ذرہ ہے میخانہ بدوش
خم بہ خم، بادہ چکاں، جام بہ جام اے ساغر
شعر اس کا ہے زمانے کو پیامِ ابدی
اس نے قایم کیا شاعر کا مقامِ ابدی
جاوداں ہے مرے ہستوں کا امام اے ساغر
جواب الجواب:
جسے کہتے ہیں ابد، تیرے عوام اے ساقی
ہے وہ اقبال کی دُردِ تہِ جام اے ساقی
لاصراحی و سبو و مَے و جام اے ساقی
آج ڈھانا ہے مشیت کا نظام اے ساقی
تلخ تر موت سے بھی ہاں کوئی جام اے ساقی
موت بھی اصل میں ہے بادہء خام اے ساقی
گر پڑی آج کلیدِ در میخانہ کہیں
تیز تر ہے ترا اندازِ خرام اے ساقی
ڈھالتا جا مگر اتنا تو بتا دے مجھ کو
کن عناصر سے ہے ہستی کا قوام اے ساقی
سقفِ میخانہ سے عالم میںمنادی کردے
غمِ اقبال میں پینا ہے حرام اے ساقی
تجھے معلوم نہیں اس کا مقام اے ساقی
دو جہاں کیف میں تھے اس کے غلام اے ساقی
طائرِ قدس تھا مرغِ تہِ دام اے ساقی
ہے وہ اقبال کی دُردِ تہِ جام اے ساقی
لاصراحی و سبو و مَے و جام اے ساقی
آج ڈھانا ہے مشیت کا نظام اے ساقی
تلخ تر موت سے بھی ہاں کوئی جام اے ساقی
موت بھی اصل میں ہے بادہء خام اے ساقی
گر پڑی آج کلیدِ در میخانہ کہیں
تیز تر ہے ترا اندازِ خرام اے ساقی
ڈھالتا جا مگر اتنا تو بتا دے مجھ کو
کن عناصر سے ہے ہستی کا قوام اے ساقی
سقفِ میخانہ سے عالم میںمنادی کردے
غمِ اقبال میں پینا ہے حرام اے ساقی
تجھے معلوم نہیں اس کا مقام اے ساقی
دو جہاں کیف میں تھے اس کے غلام اے ساقی
طائرِ قدس تھا مرغِ تہِ دام اے ساقی