فائضہ خان
محفلین
تم رات ہو۔۔۔۔۔
رات جو تاریکی کا وہ غلاف تان دیتی ہے جس میں مادے کی مصنوعی سرحدیں فنا ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔ کئی بار میں نے رات کے دهاگے کو پکڑ کر خماری کے اس ماتم میں شرکت کی۔۔۔۔ اور اس ماتم میں موجود خوشی کے نغموں کو سنا ہے۔۔۔۔ کئی بار میں نے ہوا میں تحلیل ہو کر تمہارے بدن کے خلیوں میں موجود خلا کی وسعتوں کی سیریں کی ہیں ۔۔۔۔
وہ وسعتیں جن سے تم خود بهی آگاہ نہیں ہو۔۔۔۔ کئی بار خواہش بهی ہوئی کہ تمہیں بتاوں اس سب کے بارے میں، مگر تم خاموشی سے اتنی ڈری ہوئی ملی ہر بار کہ میں تمهارے لفظوں کی موسلا دهار بارش سے بچ کر دور سے ہی ہاں میں ہاں ملاتا رہا... مگر بهوگیوں کا ازل سے یہی طرز رہا ہے کہ وہ بدن کا۔۔۔۔ لفظ کا۔۔۔۔ مکان کا۔۔۔ زمان کا ۔۔۔ ہر ستم آب بقا سمجھ کر اس وقت تک پیتے رہتے ہیں جب تک وہ اس سے ماورا نہیں ہو جاتے۔۔۔۔۔
تم بهی وہی ہو مگر بهوگنے میں ہی عمر نہ گزارنا کہ بهوگ یوگ کی سرحد کو نہ لگے تو کرب بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ میں پیدائش اور موت کے نامختتم سلسلہ میں بس ایک رسم نبها رہا ہوں یہ سب بتا کر ۔۔۔۔ جسے وجود جانتا ہے کہ وہ موجود نہیں ہے مگر بهرم بنائے رہتا ہے ۔۔۔۔۔
جیسے لفظ جانتے ہیں کہ وہ بس خاموشی کے بے انت فلک کے ناچیز سے تارے ہیں جو چمکنے کی پوری کوشش کر کے اپنے روشن ہونے کا بهرم بنائے رہتے ہیں ۔۔۔۔ میں بهی لفظوں کے یہ سارے منتر پهونک کر اپنے مرتے ہوئے سحر کو پهونکنے کی دنیاوی رسم کی جهوٹی لذت دے رہا ہوں۔۔۔۔
تم کو تم ۔۔۔ مجھ کو مجھ اور ہم کو سب ہونے میں جو رکاوٹیں ہیں آج وہ ختم ہو گئیں ۔۔۔۔۔ وجود کی کمین گاہ سے آخری ٹرانسمشن میں بس اتنا کہوں گا کہ اپنے زوال کو روکنے کی وہ کوشش تم نہ کرنا جو سب کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اس برپا ہوتے زوال کو یوں دیکهنا جیسے بچے ساحل پر بنائے اپنے مکان کو لہروں سے ملیامیٹ ہوتے دیکهتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔۔۔۔۔ تم مزاحمت کرو گی تو بہت دکھ دیکهو گی۔۔۔۔۔۔ اسے یوں قبولنا جیسے مٹنا خود چنا ہو۔۔۔۔ جو مٹنا خود چن لے اس کا ہونا ابد تک طے ہے۔۔۔۔ اور ہاں معدومیت کی منزلوں سے گزر کر جب بہم ہونا تو وہ ضرور کہنا.... "میرے رانجهن" ۔۔۔۔ شاید اس حالت وجود میں۔۔۔۔ "میری ہیر" ۔۔۔۔۔ کہنے پر مجهے کوئی اعتراض نہ ہو۔۔۔۔۔
تمہیں نہ کچھ کہنے کو یہ سب کہہ رہا ہوں... جو نہ کہا ہو وہی حقیقی کہنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ جیسے یوں جانو کہ جب دو ٹانگوں کی اس مخلوق نے لفظ نہیں تراشے تهے تو تب وہ کیسے کچھ کہتے ہوں گے۔۔۔۔ وہی کہا تها ہمارا کہا....اور ابهی میں وہی کہہ رہا ہوں... لفظ جادو نہیں ہیں لفظ فضیلت بهی نہیں ہیں۔۔۔۔۔ بس یہ ہماری ویسی ہی لا یعنی ایجاد ہیں جیسی ایٹم بم ۔۔۔۔ جیسی یہ ابلاغ کے جدید طرز جو شور زیادہ اور بامعنی رابطہ کم ہیں ۔۔۔۔۔
تم سے اب اس خاموشی کی لہروں کے ذریعے مکالمہ ہو گا ۔۔۔
(جاری)
رات جو تاریکی کا وہ غلاف تان دیتی ہے جس میں مادے کی مصنوعی سرحدیں فنا ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔ کئی بار میں نے رات کے دهاگے کو پکڑ کر خماری کے اس ماتم میں شرکت کی۔۔۔۔ اور اس ماتم میں موجود خوشی کے نغموں کو سنا ہے۔۔۔۔ کئی بار میں نے ہوا میں تحلیل ہو کر تمہارے بدن کے خلیوں میں موجود خلا کی وسعتوں کی سیریں کی ہیں ۔۔۔۔
وہ وسعتیں جن سے تم خود بهی آگاہ نہیں ہو۔۔۔۔ کئی بار خواہش بهی ہوئی کہ تمہیں بتاوں اس سب کے بارے میں، مگر تم خاموشی سے اتنی ڈری ہوئی ملی ہر بار کہ میں تمهارے لفظوں کی موسلا دهار بارش سے بچ کر دور سے ہی ہاں میں ہاں ملاتا رہا... مگر بهوگیوں کا ازل سے یہی طرز رہا ہے کہ وہ بدن کا۔۔۔۔ لفظ کا۔۔۔۔ مکان کا۔۔۔ زمان کا ۔۔۔ ہر ستم آب بقا سمجھ کر اس وقت تک پیتے رہتے ہیں جب تک وہ اس سے ماورا نہیں ہو جاتے۔۔۔۔۔
تم بهی وہی ہو مگر بهوگنے میں ہی عمر نہ گزارنا کہ بهوگ یوگ کی سرحد کو نہ لگے تو کرب بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ میں پیدائش اور موت کے نامختتم سلسلہ میں بس ایک رسم نبها رہا ہوں یہ سب بتا کر ۔۔۔۔ جسے وجود جانتا ہے کہ وہ موجود نہیں ہے مگر بهرم بنائے رہتا ہے ۔۔۔۔۔
جیسے لفظ جانتے ہیں کہ وہ بس خاموشی کے بے انت فلک کے ناچیز سے تارے ہیں جو چمکنے کی پوری کوشش کر کے اپنے روشن ہونے کا بهرم بنائے رہتے ہیں ۔۔۔۔ میں بهی لفظوں کے یہ سارے منتر پهونک کر اپنے مرتے ہوئے سحر کو پهونکنے کی دنیاوی رسم کی جهوٹی لذت دے رہا ہوں۔۔۔۔
تم کو تم ۔۔۔ مجھ کو مجھ اور ہم کو سب ہونے میں جو رکاوٹیں ہیں آج وہ ختم ہو گئیں ۔۔۔۔۔ وجود کی کمین گاہ سے آخری ٹرانسمشن میں بس اتنا کہوں گا کہ اپنے زوال کو روکنے کی وہ کوشش تم نہ کرنا جو سب کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اس برپا ہوتے زوال کو یوں دیکهنا جیسے بچے ساحل پر بنائے اپنے مکان کو لہروں سے ملیامیٹ ہوتے دیکهتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔۔۔۔۔ تم مزاحمت کرو گی تو بہت دکھ دیکهو گی۔۔۔۔۔۔ اسے یوں قبولنا جیسے مٹنا خود چنا ہو۔۔۔۔ جو مٹنا خود چن لے اس کا ہونا ابد تک طے ہے۔۔۔۔ اور ہاں معدومیت کی منزلوں سے گزر کر جب بہم ہونا تو وہ ضرور کہنا.... "میرے رانجهن" ۔۔۔۔ شاید اس حالت وجود میں۔۔۔۔ "میری ہیر" ۔۔۔۔۔ کہنے پر مجهے کوئی اعتراض نہ ہو۔۔۔۔۔
تمہیں نہ کچھ کہنے کو یہ سب کہہ رہا ہوں... جو نہ کہا ہو وہی حقیقی کہنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ جیسے یوں جانو کہ جب دو ٹانگوں کی اس مخلوق نے لفظ نہیں تراشے تهے تو تب وہ کیسے کچھ کہتے ہوں گے۔۔۔۔ وہی کہا تها ہمارا کہا....اور ابهی میں وہی کہہ رہا ہوں... لفظ جادو نہیں ہیں لفظ فضیلت بهی نہیں ہیں۔۔۔۔۔ بس یہ ہماری ویسی ہی لا یعنی ایجاد ہیں جیسی ایٹم بم ۔۔۔۔ جیسی یہ ابلاغ کے جدید طرز جو شور زیادہ اور بامعنی رابطہ کم ہیں ۔۔۔۔۔
تم سے اب اس خاموشی کی لہروں کے ذریعے مکالمہ ہو گا ۔۔۔
(جاری)
آخری تدوین: