محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
مکاں سے لا مکاں تک آ گئے ہیں
کہاں سے ہم کہاں تک آ گئے ہیں
جہاں جلتے ہیں پر ہوش و خرد کے
جنوں میں ہم وہاں تک آ گئے ہیں
بھڑک اٹھی ہے کیسی آتش گل
شرارے آشیاں تک آ گئے ہیں
خلوص دوستی پر مرنے والے
حیات جاوداں تک آ گئے ہیں
ہماری گم رہی منزل نشاں ہے
تجسس میں کہاں تک آ گئے ہیں
وہاں دل میں محبت کی کمی ہے
جہاں شکوے زباں تک آ گئے ہیں
تماشائے بہار گل کی شیدا
بہار گل رخاں تک آ گئے ہیں
مقام اپنا نہیں معلوم لیکن
جہاں تم ہو وہاں تک آ گئے ہیں
کسی کے جلوہ ہائے حیرت انگیز
نظر کے امتحاں تک آ گئے ہیں
نہ پہنچے خانہ دل کے مکیں تک
زمیں سے آسماں تک آ گئے ہیں
گزر کر ہم خودی وہم و گماں سے
خدا جانے کہاں تک آ گئے ہیں
رشیؔ منزل نہیں اب دور ہم سے
غبار کارواں تک آ گئے ہیں
رشی پٹیالوی
کہاں سے ہم کہاں تک آ گئے ہیں
جہاں جلتے ہیں پر ہوش و خرد کے
جنوں میں ہم وہاں تک آ گئے ہیں
بھڑک اٹھی ہے کیسی آتش گل
شرارے آشیاں تک آ گئے ہیں
خلوص دوستی پر مرنے والے
حیات جاوداں تک آ گئے ہیں
ہماری گم رہی منزل نشاں ہے
تجسس میں کہاں تک آ گئے ہیں
وہاں دل میں محبت کی کمی ہے
جہاں شکوے زباں تک آ گئے ہیں
تماشائے بہار گل کی شیدا
بہار گل رخاں تک آ گئے ہیں
مقام اپنا نہیں معلوم لیکن
جہاں تم ہو وہاں تک آ گئے ہیں
کسی کے جلوہ ہائے حیرت انگیز
نظر کے امتحاں تک آ گئے ہیں
نہ پہنچے خانہ دل کے مکیں تک
زمیں سے آسماں تک آ گئے ہیں
گزر کر ہم خودی وہم و گماں سے
خدا جانے کہاں تک آ گئے ہیں
رشیؔ منزل نہیں اب دور ہم سے
غبار کارواں تک آ گئے ہیں
رشی پٹیالوی