مکاں سے لامکاں تک آگئے ہیں ٭ رشی پٹیالوی

مکاں سے لا مکاں تک آ گئے ہیں
کہاں سے ہم کہاں تک آ گئے ہیں

جہاں جلتے ہیں پر ہوش و خرد کے
جنوں میں ہم وہاں تک آ گئے ہیں

بھڑک اٹھی ہے کیسی آتش گل
شرارے آشیاں تک آ گئے ہیں

خلوص دوستی پر مرنے والے
حیات جاوداں تک آ گئے ہیں

ہماری گم رہی منزل نشاں ہے
تجسس میں کہاں تک آ گئے ہیں

وہاں دل میں محبت کی کمی ہے
جہاں شکوے زباں تک آ گئے ہیں

تماشائے بہار گل کی شیدا
بہار گل رخاں تک آ گئے ہیں

مقام اپنا نہیں معلوم لیکن
جہاں تم ہو وہاں تک آ گئے ہیں

کسی کے جلوہ ہائے حیرت انگیز
نظر کے امتحاں تک آ گئے ہیں

نہ پہنچے خانہ دل کے مکیں تک
زمیں سے آسماں تک آ گئے ہیں

گزر کر ہم خودی وہم و گماں سے
خدا جانے کہاں تک آ گئے ہیں

رشیؔ منزل نہیں اب دور ہم سے
غبار کارواں تک آ گئے ہیں

رشی پٹیالوی
 
Top