زبیر مرزا
محفلین
مکتبِ اُردو بلاگراں کا نام ہم نے کئی بار اپنے کچھ دوست احباب کی زبانی سنا -وہ اس مکتب سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمیں بھی اس میں داخلے کی ترغیب دیتے رہے ہیں - اول اول اس مکتب کےبارے میں محب علوی نے بتایا جو وہاں لوگوں کو لےجاتے ہیں حوصلہ ،ہمت اور شاباشی دے کر اور خود باہرداروزے کی اوٹ میں کھڑے ہوکرڈائجسٹ پڑھتے اور آئسکریم کھاتے رہتے ہیں -@ابن سعید کا اس مکتب سےبراہ راست تعلق ہے یہ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے لیکن وہ سفید اچکن پہن کےاس کے داخلے کی تیاری انفرادی طور پرکرواتے ہیں یعنی ٹیوشن دیتے ہیں- ہمیں اس سال ماہِ فروری میں کراچی کے چند بلاگران نے اس کی اہمیت کا بتایا تو بھی ہم نے کان نہ دھرے لیکن جب انھوں نے بلاگران کی شہرت اور ایک تقریب کا انعقاد میں کچھ انعامات کا ذکرکیا تو ہم اس جانب متوجہ ہوئے کیونکہ ہمیں شہرت اور انعامات حاصل کرنے کا شوق تعلیم حاصل کرنے سے کہیں زیادہ ہے - یوں ہم نے مکتبِ اُردو بلاگراں میں داخلے کا سوچا جس کے لیے ہم محلہ بلاگستان اوراُردو سورس کے عامر ملک کے شکرگذارہیں -
اس مکتبِ میں داخلے کی تختی اور اندراج کے لیے ایک شناختی نام اپنے نام کے ساتھ حاصل کرنا پڑتا ہے چونکہ ہم مغل بچے ہیں تو اندازِ بیاں اور کی شناخت رکھی جس کو دیکھ کر اُستادمکرم محمدیعقوب آسی صاحب اس کی بجائے شہرِ خیال تجویز کیا اور ہم بھی خود کو مرزا غالب سمجھنا چھوڑ کر طفلِ مکتب بنے -ہمارا پہلا ہی دن تھا کہ معروف بلاگر ریاض شاہد صاحب نے ہمیں صحیح تختی لانے کا مخلصانہ مشورہ دیا اور ہم نے بلاگ سپاٹ والی تحتی حاصل کی-اس مکتب میں ہمارے ساتھ حسان خان نے بھی داخلہ لیا لیکن اس پوت کے پاؤں تو پالنے میں نظرآنے لگے اور وہ فارسی جماعت میں لگے اپنا سکہ جمانے- اس مضمون کی جماعت کے اساتذہ میں محمد وارث اور یعقوب آسی صاحب شامل ہیں - حسان کے ہوتے ہمیں یہاں اپنی دال گلتی نظرنہ آئی اور پکا یقین ہوگیا ہم اس مضمون میں فیل ہوں گے لہذا دوسرے مضامین کی جماعتوں میں تاک جھانک شروع کی اورٹھان لی کہ اچھی طرح جائزہ لے کرجماعت میں داخل ہوں گے کہیں پھر کوئی حسان خان ہلاکوخان بن کےہمارے خوابوں کا خون نہ کردے- پہلے مضمون کی جماعت ہمیں نظرآئی اس کے باہر ایم بلال ایم کی تختی آویزاں تھی اور یہاں خوش خطی کی تعلیم دی جارہی تھی پاک اُردوانسٹالرکے ذریعے خط کی مشق کرائی جارہی تھی ہم نے پاک اُردوانسٹالرکی کاپی اُٹھائی ا ور آگے بڑھ گئے-سائنس کی جماعت میں مولوی صورت اُستاد محمد سعد براجمان تھے اور فرمارہے تھے سائنس میں دلچسپی کم لوگ لیتے ہیں آپ بھی ان میں سے ایک لگتے ہیں ہم اگرچہ ان کی صاف گوئی سے متاثرہوئے لیکن سائنس کے مضمون سے نہیں-
ایک کلاس میں دھان پان سے غلام اصغرساجد سماجیات اور سیاسست جیسےبھاری بھرکم مضمون پڑھارہے تھے جو انتہائی سنجیدہ تھے اور ہم سمجھتے ہیں ابھی ہماری عمرسنجیدہ ہونے کی نہیں- ہمیں گھریلوں باغبانی سکھاتے مشفق اُستاد مصطفٰی ملک صاحب دکھائے دیئے ان کی کلاس میں طلباء کی ایک بڑی تعداد ہاتھ میں بیلچے ، کھرپی ، بیج ، گملے اور پانی کے ڈبے لیے محنت کرتی نظر آئی ہم ٹھہرے سدا کے آرام پسند اور کاہل تو
دبے قدموں دوسری جانب نکلے- میدان میں فہدکہیر@ابوشامل کرک نامہ کا بورڈ لگائے کھیلوں کی ترغیب دلارہے تھے ساتھ کچھ اہم سماجی
موضوعات پربھی اظہارخیال کرتے پائے گئے ان کے ساتھ ہی محمداسد اسلم ایک میزلگائے آئی ٹی کی کلاس بھی لے رہے تھے اور طلباء کو ایک ساتھ دومضامین پڑھا کروقت کے صحیح استعمال کا عملی گُرسیکھا رہے تھے ساتھ ہی کوئی چٹکلا بھی زیرِلب سنادیتے- گو یہ ان دونوں صاحبان سے ہمیں ہمت افزائی اور مکتبِ اُردوبلاگراں کے لیے مشورے ملے پھر بھی مزید سوچ بچار کے لیے وقت چاہتے تھے-
ہمیں اسی مکتب میں نیرنگ خیال بھی ملے جو ہمارے پُرانے شناسا ہیں وہ یہاں طالب علموں کو پکوڑے تلنے اور چٹ پٹی تحریرلکھنے کے گُرسکھارہے تھے- ہم نے عمار ابن ضیا کو موٹرسائیکل کے قصے کوسادگی سے تحریرمیں ڈھالتے سنا یوں تو یہ مایہ ناز خوبصورت بلاگر جغرافیہ پڑھاتے ہیں - ایک اور خوش شکل عالم اسلامی تاریخ پہ دسترس رکھتے ہیں اور اس کا درس دیتے ہیں- ایک نوجوان کاشف نصیر انتہائی پُھرتیلا ہمیں یہاں اساتذہ میں نظرآیا بارے ہم کچھ اس سے پوچھتے وہ کسی اور کام میں مصروف ہوگیا- اس مکتب میں وقاراعظم کی حیثیت ہمارے لیے سکندراعظم کی سی ہے وہ آیا اس نے لکھا اس نے فتح کرلیا- ایک مردِ وکیل ماہر قانون گھمن صاحب بھی یہاں کے نامور معلم ہیں یہ قانون کا مضمون پڑھاتے ہیں اور جیسا کے ہمارے ہاں قانون کو مذاق سمجھا جاتا ہے ان کی کلاس میں حسِ مزاح کی تربیت قانون سے زیادہ توجہ پاتی ہے-اب ہمارا اُڑھنا بچھونا بلکہ کھانا پینا بلاگنگ ہورہا ہے ہم بوٹی کو بلاگ کہہ جاتے ہیں کہ ایک بناء چربی کا بلاگ چاہیے اور روٹی یوں مانگتے ہیں ایک اورتبصرہ مکھن لگا کے - لہذا اب ہم نے اس مکتبِ اُردوبلاگراں میں شمولیت اختیار کرلی ہے اس اُمید کے ساتھ کہ ہماری اُردوزبان کی خدمات اور شہرت کی بدولت جلدہی ہمیں نوبل پرائز سے نوازا جائے گا-
اس مکتبِ میں داخلے کی تختی اور اندراج کے لیے ایک شناختی نام اپنے نام کے ساتھ حاصل کرنا پڑتا ہے چونکہ ہم مغل بچے ہیں تو اندازِ بیاں اور کی شناخت رکھی جس کو دیکھ کر اُستادمکرم محمدیعقوب آسی صاحب اس کی بجائے شہرِ خیال تجویز کیا اور ہم بھی خود کو مرزا غالب سمجھنا چھوڑ کر طفلِ مکتب بنے -ہمارا پہلا ہی دن تھا کہ معروف بلاگر ریاض شاہد صاحب نے ہمیں صحیح تختی لانے کا مخلصانہ مشورہ دیا اور ہم نے بلاگ سپاٹ والی تحتی حاصل کی-اس مکتب میں ہمارے ساتھ حسان خان نے بھی داخلہ لیا لیکن اس پوت کے پاؤں تو پالنے میں نظرآنے لگے اور وہ فارسی جماعت میں لگے اپنا سکہ جمانے- اس مضمون کی جماعت کے اساتذہ میں محمد وارث اور یعقوب آسی صاحب شامل ہیں - حسان کے ہوتے ہمیں یہاں اپنی دال گلتی نظرنہ آئی اور پکا یقین ہوگیا ہم اس مضمون میں فیل ہوں گے لہذا دوسرے مضامین کی جماعتوں میں تاک جھانک شروع کی اورٹھان لی کہ اچھی طرح جائزہ لے کرجماعت میں داخل ہوں گے کہیں پھر کوئی حسان خان ہلاکوخان بن کےہمارے خوابوں کا خون نہ کردے- پہلے مضمون کی جماعت ہمیں نظرآئی اس کے باہر ایم بلال ایم کی تختی آویزاں تھی اور یہاں خوش خطی کی تعلیم دی جارہی تھی پاک اُردوانسٹالرکے ذریعے خط کی مشق کرائی جارہی تھی ہم نے پاک اُردوانسٹالرکی کاپی اُٹھائی ا ور آگے بڑھ گئے-سائنس کی جماعت میں مولوی صورت اُستاد محمد سعد براجمان تھے اور فرمارہے تھے سائنس میں دلچسپی کم لوگ لیتے ہیں آپ بھی ان میں سے ایک لگتے ہیں ہم اگرچہ ان کی صاف گوئی سے متاثرہوئے لیکن سائنس کے مضمون سے نہیں-
ایک کلاس میں دھان پان سے غلام اصغرساجد سماجیات اور سیاسست جیسےبھاری بھرکم مضمون پڑھارہے تھے جو انتہائی سنجیدہ تھے اور ہم سمجھتے ہیں ابھی ہماری عمرسنجیدہ ہونے کی نہیں- ہمیں گھریلوں باغبانی سکھاتے مشفق اُستاد مصطفٰی ملک صاحب دکھائے دیئے ان کی کلاس میں طلباء کی ایک بڑی تعداد ہاتھ میں بیلچے ، کھرپی ، بیج ، گملے اور پانی کے ڈبے لیے محنت کرتی نظر آئی ہم ٹھہرے سدا کے آرام پسند اور کاہل تو
دبے قدموں دوسری جانب نکلے- میدان میں فہدکہیر@ابوشامل کرک نامہ کا بورڈ لگائے کھیلوں کی ترغیب دلارہے تھے ساتھ کچھ اہم سماجی
موضوعات پربھی اظہارخیال کرتے پائے گئے ان کے ساتھ ہی محمداسد اسلم ایک میزلگائے آئی ٹی کی کلاس بھی لے رہے تھے اور طلباء کو ایک ساتھ دومضامین پڑھا کروقت کے صحیح استعمال کا عملی گُرسیکھا رہے تھے ساتھ ہی کوئی چٹکلا بھی زیرِلب سنادیتے- گو یہ ان دونوں صاحبان سے ہمیں ہمت افزائی اور مکتبِ اُردوبلاگراں کے لیے مشورے ملے پھر بھی مزید سوچ بچار کے لیے وقت چاہتے تھے-
ہمیں اسی مکتب میں نیرنگ خیال بھی ملے جو ہمارے پُرانے شناسا ہیں وہ یہاں طالب علموں کو پکوڑے تلنے اور چٹ پٹی تحریرلکھنے کے گُرسکھارہے تھے- ہم نے عمار ابن ضیا کو موٹرسائیکل کے قصے کوسادگی سے تحریرمیں ڈھالتے سنا یوں تو یہ مایہ ناز خوبصورت بلاگر جغرافیہ پڑھاتے ہیں - ایک اور خوش شکل عالم اسلامی تاریخ پہ دسترس رکھتے ہیں اور اس کا درس دیتے ہیں- ایک نوجوان کاشف نصیر انتہائی پُھرتیلا ہمیں یہاں اساتذہ میں نظرآیا بارے ہم کچھ اس سے پوچھتے وہ کسی اور کام میں مصروف ہوگیا- اس مکتب میں وقاراعظم کی حیثیت ہمارے لیے سکندراعظم کی سی ہے وہ آیا اس نے لکھا اس نے فتح کرلیا- ایک مردِ وکیل ماہر قانون گھمن صاحب بھی یہاں کے نامور معلم ہیں یہ قانون کا مضمون پڑھاتے ہیں اور جیسا کے ہمارے ہاں قانون کو مذاق سمجھا جاتا ہے ان کی کلاس میں حسِ مزاح کی تربیت قانون سے زیادہ توجہ پاتی ہے-اب ہمارا اُڑھنا بچھونا بلکہ کھانا پینا بلاگنگ ہورہا ہے ہم بوٹی کو بلاگ کہہ جاتے ہیں کہ ایک بناء چربی کا بلاگ چاہیے اور روٹی یوں مانگتے ہیں ایک اورتبصرہ مکھن لگا کے - لہذا اب ہم نے اس مکتبِ اُردوبلاگراں میں شمولیت اختیار کرلی ہے اس اُمید کے ساتھ کہ ہماری اُردوزبان کی خدمات اور شہرت کی بدولت جلدہی ہمیں نوبل پرائز سے نوازا جائے گا-
آخری تدوین: