مکمل دماغ کی فعالیت ۔۔

"جنگ کے زمانے میں لوگوں میں خود کشی کا رجحان کم ہوجاتا ہے"۔
یہ تحقیق پڑھتے ہوئے مجھے کچھ اچھنبا ہوا۔ دماغ کی ساخت کے بارے میں میں نے نفسیات کے مضمون میں پڑھا ہوا ہے کہ یہ دائیں اور بائیں طرف برابر دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے متصل ہوتے ہیں اور پھر ان دونوں حصوں کے آگے سے پیچھے جاتے ہوئے چھ حصےہوتے ہیں۔ جو ہماری یاد داشت اور جذبات وغیرہ کو قابو میں رکھتے ہیں۔ جنگ کے دنوں میں چوں کہ لوگ زندگی کی بقا کے لیے لڑتے ہیں تو ان کا دماغ مکمل طورپر فعال ہوجاتا ہے اور ہر حصہ اپنا اپنا کام تیزی سے کرتا ہے۔ بیرونی دنیا کے اثرات ہماری فکر پر تیزی سے غالب آتے ہیں اور لاشعور، شعور ہی سے ترتیب پاتا ہے اس لیے میں اس تحقیق کو کافی حد تک درست مانتا ہوں۔
خوشی اور امید کے وقت بھی دماغ مکمل طورپر کام کرتا ہے جب کہ نا امیدی اور بے چینی کے وقت ہمارا دماغ درست انداز میں کام نہیں کرتاجس سے ہم فیصلہ لینے سے درست انداز میں سوچنے سمجھنے تک کے افعال مشکل سے انجام دے پاتے ہیں۔ اس سےبہت سی نفیساتی اور جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً آئی بی ایس۔ یہ بیماری حساس لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ آپ جیسے ہی کسی ٹینشن یا ڈپریشن کا سامنا کرتے ہیں، فوراً آپ کا معدہ خراب ہوجاتا ہے اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ موشن لگ جائیں، نیند نہ آئے، خوشی میں غم اور غم میں خوشی محسوس کریں وغیرہ وغیرہ۔ اچھے دوستوں سے مشورہ، کسی مرشد کی رہنمائی، اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق جس میں یہ خیال شاملِ حال رہے کہ کوئی ایسی ذات موجود ہے جو ہمیں دیکھ رہی ہے، ہمارے مسائل کا حل جانتی ہے اور اس کے سہارے ہم نے کچھ وقت اور صبر اور حوصلے سے برداشت کرنا ہے، آپ کو ایسی مشکلات میں آسان حل فراہم کرتا ہے۔ نماز کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا بھی اس مسئلے کا آسان حل ہے۔ خوراک میں پودینے کا یا ایسی غذا کا استعمال جو ڈپریشن کے اثرات کو کم کرے،فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ فطرت کی قربت اور اس کا مطالعہ بھی دماغ کی فعالیت بڑھاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، کھیلنا کودنا، ورزش کرنا، کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کی جستجو، فنونِ لطیفہ کا ذوق بھی آپ کے دماغ کو فعال رکھتا ہے۔
دماغ کی کم فعالیت کی کئی علامات آہستہ آہستہ سامنے آتی ہیں۔ زیادہ بھولنا بھی دماغ کی کم فعالیت کی علامت ہے۔ نیشنل جغرافیہ کے "برین نمبر" کا مطالعہ کرتے ہوئے دماغ کو فعال رکھنے کا ایک طریقہ الرٹ لگانا سامنے آیاتھا۔یہ بھولنے کی بیماری کا آسان حل تھا۔ یعنی آپ خود کو فعال رکھنے کے لیے مختلف اوقات کے موبائل الارم لگائیے اور جیسے ہی الارم بجے، اس کام کی جانب تیزی سے بڑھیے اور اسے انجام دے دیجیے۔ اس سے آپ کا دماغ تروتازہ رہے گا، یاد داشت بڑھے گی اور جسم و دماغ کی یکجائی گویا ایک نئی زندگی کا آغاز ثابت ہوگی۔ مجھے تو یہ پڑھتے ہوئے بھی یقین کیجیے نماز ہی کا خیال آیا تھا اور اذان کو بطور الرٹ محسوس کیا تھا۔ فجر کے وقت اٹھنا، آپ کو خود سے لڑواتا ہے، قوتِ مدافعت بہتر کرتا ہے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہ ڈپریشن کو بھی کم کرتا ہے۔
دماغ کو فعال رکھنےاور زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے منفی لوگوں کو خود سے دور کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں ہم چوںکہ بہت سے کام کے ساتھی، رشتہ دار اور ہمسائیوں سے جان نہیں چھڑا سکتے، اس لیے ان کی باتوں پر کم سے کم دھیان دینا، خود میں معافی مانگنے اور معاف کردینے کا حوصلہ پیدا کرنا، دوسروں سے منفی چیزوں میں موازنہ نہ کرنا اور بالخصوص روزانہ کی خبروں سے دور رہنا بہت ضروری ہے۔ آپ آج جو خبریں سن رہے ہیں، دس سال بعد بھی ویسی ہی ملیں گی۔ میں خود بھی خبریں سنتا ہوں لیکن روزانہ کی بنیاد پر سننا بند کردی ہیں، قتل و غارت گری، چوری ڈکیتی، نا انصافی پر مبنی فیصلے، لوٹ کھسوٹ کا نظام اور جگہ جگہ ہوتے احتجاج وغیرہ، آپ کے دماغ پر کونسا مثبت اثر چھوڑ سکتے ہیں؟ اور کتنی دیر تک آپ ان خبروں کو مسلسل سنتے ہوئے مثبت رہ سکتے ہیں ؟ کیا ان خبروں کے تسلسل سے ایسے جذبات پیدا نہیں ہوتے جن میں لاشعوری طورپر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم بے بس اور مظلوم ہیں، ہم کچھ نہیں کرسکتے، ہمیں یہاں سے چلے جانا چاہیے وغیرہ وغیرہ؟؟؟ اس لیے عملی زندگی کو اپنائیے، کوئی ہنر سیکھیے، چھوٹا بڑا جو بھی کام ملے ترجیحی بنیادوں پر شروع کیجیے اور زندگی میں مثبت رویہ اپناتے ہوئے آگے بڑھتے جائیے۔ ان شا اللہ بہتری کے امکانات روشن ہوں گے۔
محمد خرم یاسین۔
نوٹ: پہلے جملے میں جنگ کا حوالہ " 100Ways to Motivate Yourself " کتاب سے لیا گیا ہے۔ ایک حوالہ نیشنل جغرافیہ کے برین نمبر کا ہے۔ اس پر ان شا اللہ چند مزید پوسٹس کروں گا۔
May be an image of text

 
مکمل دماغ کی فعالیت
"جنگ کے زمانے میں لوگوں میں خود کشی کا رجحان کم ہوجاتا ہے"۔​
یہ تحقیق پڑھتے ہوئے مجھے کچھ ا چنبا /اچنبھاہوا۔ دماغ کی ساخت کے بارے میں میں نے نفسیات کے مضمون میں پڑھا ہوا ہے کہ یہ دائیں اور بائیں طرف برابر دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے متصل ہوتے ہیں اور پھر ان دونوں حصوں کے آگے سے پیچھے جاتے ہوئے چھ حصےہوتے ہیں۔ جو ہماری یاد داشت اور جذبات وغیرہ کو قابو میں رکھتے ہیں۔ جنگ کے دنوں میں چوں کہ لوگ زندگی کی بقا کے لیے لڑتے ہیں تو ان کا دماغ مکمل طورپر فعال ہوجاتا ہے اور ہر حصہ اپنا اپنا کام تیزی سے کرتا ہے۔ بیرونی دنیا کے اثرات ہماری فکر پر تیزی سے غالب آتے ہیں اور لاشعور، شعور ہی سے ترتیب پاتا ہے اس لیے میں اس تحقیق کو کافی حد تک درست مانتا ہوں۔
خوشی اور امید کے وقت بھی دماغ مکمل طورپر کام کرتا ہے جب کہ نااُمیدی اور بے چینی کے وقت ہمارا دماغ درست انداز میں کام نہیں کرتاجس سے ہم فیصلہ لینے سے درست انداز میں سوچنے سمجھنے تک کے افعال مشکل سے انجام دے پاتے ہیں۔ اس سےبہت سی نفسیاتی اور جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً آئی بی ایس۔ یہ بیماری حساس لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ آپ جیسے ہی کسی ٹینشن یا ڈپریشن کا سامنا کرتے ہیں، فوراً آپ کا معدہ خراب ہوجاتا ہے اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ موشن لگ جائیں، نیند نہ آئے، خوشی میں غم اور غم میں خوشی محسوس کریں وغیرہ وغیرہ۔ اچھے دوستوں سے مشورہ، کسی مرشد کی رہنمائی، اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق جس میں یہ خیال شاملِ حال رہے کہ کوئی ایسی ذات موجود ہے جو ہمیں دیکھ رہی ہے، ہمارے مسائل کا حل جانتی ہے اور اس کے سہارے ہم نے کچھ وقت اور صبر اور حوصلے سے برداشت کرنا ہے، آپ کو ایسی مشکلات میں آسان حل فراہم کرتا ہے۔ نماز کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا بھی اس مسئلے کا آسان حل ہے۔ خوراک میں پودینے کا یا ایسی غذا کا استعمال جو ڈپریشن کے اثرات کو کم کرے،فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ فطرت کی قربت اور اس کا مطالعہ بھی دماغ کی فعالیت بڑھاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، کھیلنا کودنا، ورزش کرنا، کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کی جستجو، فنونِ لطیفہ کا ذوق بھی آپ کے دماغ کو فعال رکھتا ہے۔
دماغ کی کم فعالیت کی کئی علامات آہستہ آہستہ سامنے آتی ہیں۔ زیادہ بھولنا بھی دماغ کی کم فعالیت کی علامت ہے۔ نیشنل جغرافیہ کے "برین نمبر" کا مطالعہ کرتے ہوئے دماغ کو فعال رکھنے کا ایک طریقہ الرٹ لگانا سامنے آیاتھا۔یہ بھولنے کی بیماری کا آسان حل تھا۔ یعنی آپ خود کو فعال رکھنے کے لیے مختلف اوقات کے موبائل الارم لگائیے اور جیسے ہی الارم بجے، اس کام کی جانب تیزی سے بڑھیے اور اسے انجام دے دیجیے۔ اس سے آپ کا دماغ تروتازہ رہے گا، یاد داشت بڑھے گی اور جسم و دماغ کی یکجائی گویا ایک نئی زندگی کا آغاز ثابت ہوگی۔ مجھے تو یہ پڑھتے ہوئے بھی یقین کیجیے نماز ہی کا خیال آیا تھا اور اذان کو بطور الرٹ محسوس کیا تھا۔ فجر کے وقت اٹھنا، آپ کو خود سے لڑواتا ہے، قوتِ مدافعت بہتر کرتا ہے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہ ڈپریشن کو بھی کم کرتا ہے۔
دماغ کو فعال رکھنےاور زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے منفی لوگوں کو خود سے دور کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں ہم چوں کہ بہت سے کام کے ساتھی، رشتہ دار اور ہمسایوں سے جان نہیں چھڑا سکتے، اس لیے ان کی باتوں پر کم سے کم دھیان دینا، خود میں معافی مانگنے اور معاف کردینے کا حوصلہ پیدا کرنا، دوسروں سے منفی چیزوں میں موازنہ نہ کرنا اور بالخصوص روزانہ کی خبروں سے دور رہنا بہت ضروری ہے۔ آپ آج جو خبریں سن رہے ہیں، دس سال بعد بھی ویسی ہی ملیں گی۔ میں خود بھی خبریں سنتا ہوں لیکن روزانہ کی بنیاد پر سننا بند کردی ہیں، قتل و غارت گری، چوری ڈکیتی، نا انصافی پر مبنی فیصلے، لوٹ کھسوٹ کا نظام اور جگہ جگہ ہوتے احتجاج وغیرہ، آپ کے دماغ پر کونسا مثبت اثر چھوڑ سکتے ہیں؟ اور کتنی دیر تک آپ ان خبروں کو مسلسل سنتے ہوئے مثبت رہ سکتے ہیں ؟ کیا ان خبروں کے تسلسل سے ایسے جذبات پیدا نہیں ہوتے جن میں لاشعوری طورپر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم بے بس اور مظلوم ہیں، ہم کچھ نہیں کرسکتے، ہمیں یہاں سے چلے جانا چاہیے وغیرہ وغیرہ؟؟؟ اس لیے عملی زندگی کو اپنائیے، کوئی ہنر سیکھیے، چھوٹا بڑا جو بھی کام ملے ترجیحی بنیادوں پر شروع کیجیے اور زندگی میں مثبت رویہ اپناتے ہوئے آگے بڑھتے جائیے۔ ان شا اللہ بہتری کے امکانات روشن ہوں گے۔​
محمد خرم یاسین۔
نوٹ: پہلے جملے میں جنگ کا حوالہ " 100Ways to Motivate Yourself " کتاب سے لیا گیا ہے۔ ایک حوالہ نیشنل جغرافیہ کے برین نمبر کا ہے۔ اس پر ان شا اللہ چند مزید پوسٹس کروں گا۔







۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔































خوب!
حسبِ معمول یہ کارآمد تحریر،گراں قدر معلومات اورقابلِ عمل ترغیبات پڑھ کر خوشی ہوئی ۔اُردُو ادب کے تحقیق طلب موضوعات تو آپ کی جدوجہد کا میدان رہے ہیں اور رہیں گے ،آج سائنس اور طب کی روشنی میں مرقومہ یہ مختصر مگر جامع مضمون بھی قارئین کے لیے ایک نئی اور فائدہ رساں کوشش شمار ہوگی:​
عشق میں سہل تھی فرہاد کی تقلید مگر
یہ مری۔ ہمتِ عالی ۔کو ۔گوارا نہ ہوا​


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



















































 
آخری تدوین:
مکمل دماغ کی فعالیت
"جنگ کے زمانے میں لوگوں میں خود کشی کا رجحان کم ہوجاتا ہے"۔​
یہ تحقیق پڑھتے ہوئے مجھے کچھ ا چنبا /اچنبھاہوا۔ دماغ کی ساخت کے بارے میں میں نے نفسیات کے مضمون میں پڑھا ہوا ہے کہ یہ دائیں اور بائیں طرف برابر دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے متصل ہوتے ہیں اور پھر ان دونوں حصوں کے آگے سے پیچھے جاتے ہوئے چھ حصےہوتے ہیں۔ جو ہماری یاد داشت اور جذبات وغیرہ کو قابو میں رکھتے ہیں۔ جنگ کے دنوں میں چوں کہ لوگ زندگی کی بقا کے لیے لڑتے ہیں تو ان کا دماغ مکمل طورپر فعال ہوجاتا ہے اور ہر حصہ اپنا اپنا کام تیزی سے کرتا ہے۔ بیرونی دنیا کے اثرات ہماری فکر پر تیزی سے غالب آتے ہیں اور لاشعور، شعور ہی سے ترتیب پاتا ہے اس لیے میں اس تحقیق کو کافی حد تک درست مانتا ہوں۔
خوشی اور امید کے وقت بھی دماغ مکمل طورپر کام کرتا ہے جب کہ نااُمیدی اور بے چینی کے وقت ہمارا دماغ درست انداز میں کام نہیں کرتاجس سے ہم فیصلہ لینے سے درست انداز میں سوچنے سمجھنے تک کے افعال مشکل سے انجام دے پاتے ہیں۔ اس سےبہت سی نفسیاتی اور جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً آئی بی ایس۔ یہ بیماری حساس لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ آپ جیسے ہی کسی ٹینشن یا ڈپریشن کا سامنا کرتے ہیں، فوراً آپ کا معدہ خراب ہوجاتا ہے اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ موشن لگ جائیں، نیند نہ آئے، خوشی میں غم اور غم میں خوشی محسوس کریں وغیرہ وغیرہ۔ اچھے دوستوں سے مشورہ، کسی مرشد کی رہنمائی، اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق جس میں یہ خیال شاملِ حال رہے کہ کوئی ایسی ذات موجود ہے جو ہمیں دیکھ رہی ہے، ہمارے مسائل کا حل جانتی ہے اور اس کے سہارے ہم نے کچھ وقت اور صبر اور حوصلے سے برداشت کرنا ہے، آپ کو ایسی مشکلات میں آسان حل فراہم کرتا ہے۔ نماز کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا بھی اس مسئلے کا آسان حل ہے۔ خوراک میں پودینے کا یا ایسی غذا کا استعمال جو ڈپریشن کے اثرات کو کم کرے،فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ فطرت کی قربت اور اس کا مطالعہ بھی دماغ کی فعالیت بڑھاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، کھیلنا کودنا، ورزش کرنا، کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کی جستجو، فنونِ لطیفہ کا ذوق بھی آپ کے دماغ کو فعال رکھتا ہے۔
دماغ کی کم فعالیت کی کئی علامات آہستہ آہستہ سامنے آتی ہیں۔ زیادہ بھولنا بھی دماغ کی کم فعالیت کی علامت ہے۔ نیشنل جغرافیہ کے "برین نمبر" کا مطالعہ کرتے ہوئے دماغ کو فعال رکھنے کا ایک طریقہ الرٹ لگانا سامنے آیاتھا۔یہ بھولنے کی بیماری کا آسان حل تھا۔ یعنی آپ خود کو فعال رکھنے کے لیے مختلف اوقات کے موبائل الارم لگائیے اور جیسے ہی الارم بجے، اس کام کی جانب تیزی سے بڑھیے اور اسے انجام دے دیجیے۔ اس سے آپ کا دماغ تروتازہ رہے گا، یاد داشت بڑھے گی اور جسم و دماغ کی یکجائی گویا ایک نئی زندگی کا آغاز ثابت ہوگی۔ مجھے تو یہ پڑھتے ہوئے بھی یقین کیجیے نماز ہی کا خیال آیا تھا اور اذان کو بطور الرٹ محسوس کیا تھا۔ فجر کے وقت اٹھنا، آپ کو خود سے لڑواتا ہے، قوتِ مدافعت بہتر کرتا ہے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہ ڈپریشن کو بھی کم کرتا ہے۔
دماغ کو فعال رکھنےاور زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے منفی لوگوں کو خود سے دور کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں ہم چوں کہ بہت سے کام کے ساتھی، رشتہ دار اور ہمسایوں سے جان نہیں چھڑا سکتے، اس لیے ان کی باتوں پر کم سے کم دھیان دینا، خود میں معافی مانگنے اور معاف کردینے کا حوصلہ پیدا کرنا، دوسروں سے منفی چیزوں میں موازنہ نہ کرنا اور بالخصوص روزانہ کی خبروں سے دور رہنا بہت ضروری ہے۔ آپ آج جو خبریں سن رہے ہیں، دس سال بعد بھی ویسی ہی ملیں گی۔ میں خود بھی خبریں سنتا ہوں لیکن روزانہ کی بنیاد پر سننا بند کردی ہیں، قتل و غارت گری، چوری ڈکیتی، نا انصافی پر مبنی فیصلے، لوٹ کھسوٹ کا نظام اور جگہ جگہ ہوتے احتجاج وغیرہ، آپ کے دماغ پر کونسا مثبت اثر چھوڑ سکتے ہیں؟ اور کتنی دیر تک آپ ان خبروں کو مسلسل سنتے ہوئے مثبت رہ سکتے ہیں ؟ کیا ان خبروں کے تسلسل سے ایسے جذبات پیدا نہیں ہوتے جن میں لاشعوری طورپر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم بے بس اور مظلوم ہیں، ہم کچھ نہیں کرسکتے، ہمیں یہاں سے چلے جانا چاہیے وغیرہ وغیرہ؟؟؟ اس لیے عملی زندگی کو اپنائیے، کوئی ہنر سیکھیے، چھوٹا بڑا جو بھی کام ملے ترجیحی بنیادوں پر شروع کیجیے اور زندگی میں مثبت رویہ اپناتے ہوئے آگے بڑھتے جائیے۔ ان شا اللہ بہتری کے امکانات روشن ہوں گے۔​
محمد خرم یاسین۔
نوٹ: پہلے جملے میں جنگ کا حوالہ " 100Ways to Motivate Yourself " کتاب سے لیا گیا ہے۔ ایک حوالہ نیشنل جغرافیہ کے برین نمبر کا ہے۔ اس پر ان شا اللہ چند مزید پوسٹس کروں گا۔







۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





























خوب!
حسبِ معمول یہ کارآمد تحریر،گراں قدر معلومات اورقابلِ عمل ترغیبات پڑھ کر خوشی ہوئی ۔اُردُو ادب کے تحقیق طلب موضوعات تو آپ کی جدوجہد کا میدان رہے ہیں اور رہیں گے ،آج سائنس اور طب کی روشنی میں مرقومہ یہ مختصر مگر جامع مضمون بھی قارئین کے لیے ایک نئی اور فائدہ رساں کوشش شمار ہوگی:​
عشق میں سہل تھی فرہاد کی تقلید مگر
یہ مری۔ ہمتِ عالی ۔کو ۔گوارا نہ ہوا​


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



















































بےحد شکریہ سر۔ جزاک اللہ خیرا۔ ذرہ نوازی۔ ممنونم
 
Top