صفی حیدر
محفلین
مکیں زمیں کے ہیں نہ آسماں کے باسی ہیں
خیال و خواب کے وہم و گماں کے باسی ہیں
ہزار اشک بہائیں رہیں گے پردے میں
ملے جو رنج وہ سوزِ نہاں کے باسی ہیں
یہ معجزہ بھی زمانے کی کروٹوں نے دیا
خدا کے عشق میں شہرِ بتاں کے باسی ہیں
حقیقتوں میں انہیں کیوں تلاش کرتے ہو
عروج والے تو اب داستاں کے باسی ہیں
نہ مل سکے گی انہیں عافیت کہیں شاید
مرے یہ خواب دلِ بے اماں کے باسی ہیں
پرندے جان کے کرتے شکار ہو جن کا
وہ خواب سارے مرے آشیاں کے باسی ہیں
جفا پرست صفی جا بجا یہاں دیکھے
وفا شعار نہ جانے کہاں کے باسی ہیں
خیال و خواب کے وہم و گماں کے باسی ہیں
ہزار اشک بہائیں رہیں گے پردے میں
ملے جو رنج وہ سوزِ نہاں کے باسی ہیں
یہ معجزہ بھی زمانے کی کروٹوں نے دیا
خدا کے عشق میں شہرِ بتاں کے باسی ہیں
حقیقتوں میں انہیں کیوں تلاش کرتے ہو
عروج والے تو اب داستاں کے باسی ہیں
نہ مل سکے گی انہیں عافیت کہیں شاید
مرے یہ خواب دلِ بے اماں کے باسی ہیں
پرندے جان کے کرتے شکار ہو جن کا
وہ خواب سارے مرے آشیاں کے باسی ہیں
جفا پرست صفی جا بجا یہاں دیکھے
وفا شعار نہ جانے کہاں کے باسی ہیں