بشارت گیلانی
محفلین
نصابِ عشق کا کیا کیا سبق نہ ازبر ہے۔
مگر بہار ہے اور دل ہوا کی زد پر ہے۔
٭٭٭
کمالِ معجزہِٗ فن، اگر حقیقت ہے۔
سراب ہے، تو قیامت صفت وہ پیکر ہے۔
٭٭٭
ہم اتفاق سے اک راہ پر سہی لیکن۔
ِّبس اپنے ظرف کی حد تک کا ہر مسافر ہے۔
٭٭٭
مگر وہ لب کہ سرِ آب جو بھی تشنہ ہیں۔
مگر وہ آنکھ کہ مرہونِ خوابِ دیگر ہے۔
٭٭٭
خرامِ یار کی تشبیہ نہ استعارہ ہے۔
کہ شاخِ گل بھی لچکتی تو ہے پہ کمتر ہے۔
٭٭٭
نہیں ہے شہر میں کہرام کی کمی لیکن۔
اگر نہیں تو فقط نعرۂِ قلندر ہے۔
٭٭٭
نہ حسنِ یار کہیں ریختے میں آتا ہے۔
نہ ربِ خلق سا دیگر کوئی سخنور ہے۔
٭٭٭
پڑا ہے کام تو اک شمعِ میکدہ سے مجھے۔
نسَب کی مد میں مرے شجرۂ پیمبر ہے۔
مگر بہار ہے اور دل ہوا کی زد پر ہے۔
٭٭٭
کمالِ معجزہِٗ فن، اگر حقیقت ہے۔
سراب ہے، تو قیامت صفت وہ پیکر ہے۔
٭٭٭
ہم اتفاق سے اک راہ پر سہی لیکن۔
ِّبس اپنے ظرف کی حد تک کا ہر مسافر ہے۔
٭٭٭
مگر وہ لب کہ سرِ آب جو بھی تشنہ ہیں۔
مگر وہ آنکھ کہ مرہونِ خوابِ دیگر ہے۔
٭٭٭
خرامِ یار کی تشبیہ نہ استعارہ ہے۔
کہ شاخِ گل بھی لچکتی تو ہے پہ کمتر ہے۔
٭٭٭
نہیں ہے شہر میں کہرام کی کمی لیکن۔
اگر نہیں تو فقط نعرۂِ قلندر ہے۔
٭٭٭
نہ حسنِ یار کہیں ریختے میں آتا ہے۔
نہ ربِ خلق سا دیگر کوئی سخنور ہے۔
٭٭٭
پڑا ہے کام تو اک شمعِ میکدہ سے مجھے۔
نسَب کی مد میں مرے شجرۂ پیمبر ہے۔